دیتا نہیں سماج اسے کیوں کوئی مقام
ہر ظلم کا شکار ہے عورت کی زندگی
دنیا بھر میں ہونے والے مختلف مقابلوں میں حصہ لیتے ہوئے اور میڈلس حاصل کرتے ہوئے ہندوستان کا نام روشن کرنے والے ریسلرس ان دنوں احتجاج پر ہیں۔ ریسلرس نے ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے سربراہ برج بھون شرن سنگھ کے خلاف خاتون ریسلرس اور اتھیلیٹس کے ساتھ بدسلوکی اور مبینہ دست درازی کے الزامات عائد کئے ہیں۔ حالانکہ مسٹر برج بھون شرن سنگھ ان الزامات سے انکار کرتے رہے ہیں لیکن ان کے خلاف پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ۔ عموما یہی طریقہ کار ہوا کرتا ہے کہ اگر کسی کے خلاف عصمت ریزی ‘ دست درازی یا اسی طرح کے کچھ اور الزامات عائد کئے جاتے ہیں تو پولیس ان کی شکایات کا جائزہ لیتے ہوئے مقدمہ درج کرتی ہے ۔ تحقیقات کی جاتی ہیں اور چارچ شیٹ پیش کرتے ہوئے معاملہ عدالت کے سپرد کردیا جاتا ہے ۔ پولیس الزامات کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش ضرور کرسکتی ہے ۔ تاہم برج بھوشن شرن سنگھ کے معاملے میںدیکھا گیا ہے کہ پولیس کسی طرح کی کارروائی کرنے سے گریز ہی کر رہی ہے ۔ ابھی تک نہ پولیس نے اس معاملے میںکوئی کارروائی کی ہے اور نہ حکومت کی جانب سے کسی طرح کے رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے ۔ ریسلنگ فیڈریشن کے صدر کا عہدہ ایک ذمہ دار عہدہ ہے اور اس پر فائز فرد کے خلاف الزامات عائد کئے جاتے ہیں تو اس معاملہ کی یکسوئی تک انہیں سرکاری عہدہ سے دور رکھا جانا چاہئے ۔ انہیںعہدہ پربرقرار رکھتے ہوئے تحقیقات کے غیر جانبدار ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ برج بھون شرن سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں بے قصور ہیں۔ انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے ۔وہ تحقیقات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں تاہم انہوں نے اپنے عہدہ سے استعفی پیش کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ ان کے عہدہ سے مستعفی ہونے سے انکار کو ہی تحقیقات میں رکاوٹ کی وجہ سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ وہ اس عہدہ پر برقرار رکھتے ہوئے تحقیقات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ۔ جن ریسلرس نے الزام عائد کیا ہے ان کی تائید میں سامنے آنے والے دوسرے ریسلرس اور اتھیلیٹس پر وہ اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں انہیں اپنے عہدہ سے فی الحال مستعفی ہوتے ہوئے تحقیقات میںتعاون کرنا چاہئے ۔
ریسلرس جس وقت سے احتجاج پر بیٹھے ہیں اس وقت سے کئی سیاسی قائدین نے ان سے ملاقات کرتے ہوئے ان سے اظہار یگانگت کیا ہے ۔ برج بھوشن شرن سنگھ کی جہاں تک بات ہے تووہ ایک طاقتور اور مافیا طرز کے سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے مجرمانہ پس منظر سے بھی سبھی واقف ہیں۔ وہ کبھی بھی کسی کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے اور اپنی طاقت کا کئی مواقع پر انہوں نے برملا اظہار بھی کیا ہے ۔ ایسے میںان کی عہدہ پر برقراری کے ذریعہ تحقیقات کے غیر جانبدار ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ برج بھوشن سیاسی پس منظر رکھتے ہیں ۔ وہ چھ مرتبہ کے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ اس طرح وہ اس سارے معاملے کو بھی سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج احتجاجی ریسلرس سے کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی واڈرا اور دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال نے ملاقات کی ۔ برج بھوشن نے پرینکا گاندھی کی ملاقات پر شدید اعتراض کیا اور کہا کہ وہ پہلے ہی سے کہہ رہے ہیں کہ کانگریس ان کے خلاف الزامات کے پس پردہ اصل محرک ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مسٹر برج بھوشن اپنے خلاف الزامات کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے بچنا چاہتے ہیں ۔ریسلرس کا ملک سے اور ملک کے وقار سے تعلق ہے ۔ ان کا کانگریس پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ کانگریس نے اگر ریسلرس کے احتجاج کی حمایت کی ہے اور ان سے اظہار یگانگت کیا ہے تو اس میں کوئی سیاسی رنگ نہیں ہے ۔ اس کو سیاسی اظہار یگانگت ہی کہا جاسکتا ہے اور اس کی روایت ہمیشہ سے رہی ہے ۔
جہاں تک برج بھوشن سنگھ کی بات ہے تووہ طاقتور لیڈر ہیں۔ ان کا رعب و دبدبہ رہا ہے ۔ انہیں ایک طرح کا مافیا بھی کہا جاتا ہے ۔ مرکز کی بی جے پی حکومت ملک بھر میں مافیا کے خلاف کارروائی کرنے کا دعوی کرتی ہے تو اسے برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف بھی حرکت میں آنا چاہئے ۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد ان کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ان کی جامع اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ ان کے خلاف مقدمات کو سیاسی نظر سے دیکھنے کی بجائے ریسلرس کے ساتھ زیادتی کے تناظر میں دیکھتے ہوئے حقائق کا پتہ چلانا چاہئے ۔ دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرنے والوں کے ساتھ اگر انصاف نہیں ہوتا ہے تو اس سے دنیا بھر میں ملک کی شبیہہ متاثر ہوسکتی ہے ۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جانا چاہئے ۔
اپوزیشن کے پٹنہ اجلاس کی تیاری
ملک بھر میں اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور بی جے پی سے مشترکہ مقابلہ کیلئے نتیش کمار کی پہل پر کوششیں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ نتیش کمار اب تک چند قائدین سے ملاقات کرچکے ہیںاور انہیںمثبت رد عمل حاصل ہوا ہے ۔ نتیش کمار اب تک کانگریس قائدین ملکارجن کھرگے ‘ راہول گاندھی کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے اروند کجریوال ‘ ترنمول کانگریس کی ممتابنرجی ‘ سماجوادی پارٹی کے اکھیلیش یادو سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ وہ دوسرے کئی قائدین سے ملاقات کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور تمام اپوزیشن قائدین کا ایک مشترکہ اور وسیع اجلاس پٹنہ میں منعقد کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ممتابنرجی کی تجویز پر یہ اجلاس ہوسکتا ہے ۔ اگر یہ اجلاس جس طرح کی امید کی جا رہی ہے منعقد ہوتا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین یہاں کسی ایک ایجنڈہ پر متحد ہوجاتے ہیں تو یہ اپوزیشن کے اتحاد کو عملی شکل دینے کی سمت ایک بڑی پیشرفت ہوسکتی ہے ۔ حالانکہ اب تک کی جو بھی سرگرمیاں رہی ہیں وہ ابھی صرف ابتدائی مرحلہ ہی ہے اور اسے صرف شروعات کہا جاسکتا ہے اور اس کو آگے بڑھانے اور کامیاب کرنے کیلئے ایک طویل اور بے تکان سفر کی ضرورت ہوگی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ نتیش کمار نے جس طرح اس معاملے میں پہل کی ہے اور وہ سبقت لے گئے ہیں اس کو دوسرے اپوزیشن قائدین کس حد تک کامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملک کے عوام اس اتحاد کی کوشش پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا انہیں آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کا موثر متبادل فراہم ہوتا ہے یا نہیں۔