س70سال میں مشکل معاشی صورتحال

   

کیا بتاؤں میں کس سے جاکے کہوں
زندگی کس طرح کی دیکھی ہے
70 سال میں مشکل معاشی صورتحال
ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال پر حالانکہ مختلف گوشوں سے مسلسل تشویش کا اظہار کیا جار ہا تھا ۔ حکومت کو بارہا توجہ دہانی بھی کروائی جا رہی تھی کہ وہ فوری حرکت میں آتے ہوئے معاشی سست روی کو ٹالنے کیلئے اقدامات کا آغاز کرے ۔ حکومت اس صورتحال پر کوئی خاص توجہ دئے بغیر اپنی دوسری سرگرمیوں میں ہی مصروف رہی تھی ۔ کچھ سرکاری گوشوں کی جانب سے تو یہ بھی دعوے کئے جا رہے تھے کہ معاشی سست روی جیسی کوئی صورتحال نہیں ہے اور ہندوستان کی ترقی کافی تیز رفتار ہو رہی ہے ۔ جب کارپوریٹ حلقوں میں تشویش کا اظہار شروع ہوا تب بھی حکومت خاموش ہی رہی اور اس نے معیشت کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کا آغاز نہیں کیا تھا ۔ ایک مرحلہ اب ایسا بھی آگیا جہاں خود نیتی آیوگ کے نائب صدر نشین نے یہ کہہ دیا ہے کہ جو حالات پیدا ہوئے ہیںان کی وجہ سے سارا معاشی نظام ہی خطرہ میں آگیا ہے ۔ نائب صدر نشین نیتی آیوگ کا یہ کہنابھی تھی کہ جو صورتحال اب پیدا ہوئی ہے وہ گذشتہ 70 سال میں کبھی نہیں ہوئی تھی ۔ اس طرح یہ اعتراف تھا کہ حکومت کی جو پالیسیاں ہیں ان کی وجہ سے حالات ابتر ہوئے ہیں۔ ملک کی صنعتوں پر بحران کی کیفیت پیدا ہوتی جارہی ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ اور ڈیجیٹل دور میں بھی جملہ گھریلو پیداوار میں اہم حصہ ادا کرنے والے شعبہ زراعت کے حالات پہلے ہی سے بحران والے ہیں۔ آٹو موبائیل شعبہ تقریبا بند ہونے کے قریب پہونچ گیا ہے ۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں۔ کئی شعبہ جات میںحالات تشویش کا باعث بنتے جا رہے ہیں ۔ اس صورتحال میں حکومت کی خاموشی نے حالات کو اور بھی مشکل بنادیا ہے ۔ تاہم اب خود سرکاری حلقوں کی جانب سے جب تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے اقدامات کی اپیل کی گئی تو کل ہی وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے معیشت کو متحرک کرنے کیلئے کچھ اقدامات کا اعلان کیا ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے بھی مشکل صورتحال کو قبول کرلیا ہے اور اس نے چھوٹے پیمانے پر ہی صحیح کچھ اقدامات کا اعلان تو ضرور کیا ہے اور بعض گوشے اس کا خیرمقدم بھی کر رہے ہیں۔
جو صورتحال بحیثیت مجموعی فی الحال پیدا ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کے معلنہ اقدامات کافی نہیں ہوسکتے ۔ معیشت کا مسئلہ ایسا ہے جس سے ہر ہندوستانی جڑا ہوا ہے اور اس کا مستقبل اس سے وابستہ ہوتا ہے ۔ ساری قوم کی ترقی معیشت سے مربوط ہوتی ہے ۔ ایسے میں حکومت کو معاشی ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ان کے مشوروں کے ذریعہ موجودہ سست روی اور مشکل صورتحال کو دو رکرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں سے بھی اس مسئلہ پر رائے حاصل کی جاسکتی ہے ۔ ان کے مشوروں سے بھی حکومت معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کرسکتی ہے ۔ جب تک حکومت کی جانب سے ایک وسیع تر منصوبہ نہیں بنایا جاتا اور محض وقتی اقدامات کئے جاتے ہیںاس وقت تک معیشت کو سدھارنے کی سمت حقیقی معنوں میںپیشرفت ممکن نظر نہیں آتی ۔ حکومت کو سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک جامع اور مبسوط حکومت عملی بنانے کیلئے پہل کردینی چاہئے ۔ عارضی اقدامات کچھ وقت کیلئے ضرور راحت کا ماحول پیداکرسکتے ہیں لیکن ان سے معیشت پر حقیقی معنوں میں کوئی بہتر اور مثبت اثرات مرتب ہونے ممکن نہیںہوسکتے ۔ ملک کے بیشتر ماہرین معاشیات بھیمعاشی نظام میں اصلاحات کی وکالت کرتے رہے ہیں اور حکومت کو ان سے بھی مشورے لینے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ۔
حکومت کو راحت پہونچانے والے اقدامات کے علاوہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ زیادہ کرنا چاہئے ۔ ہر سال دو کروڑ روزگار کا وعدہ تو کیا وفا ہوتا اب موجودہ ملازمتیں ہی ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ گذشتہ چند مہینوں میں لاکھوں ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں اور آئندہ مہینوںمیں مزیدملازمتیں ختم ہونے کے اندیشے بھی ہیں۔ خانگی اور سرکاری دونوںشعبہ اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت کو ملازمتوں کی فراہمی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جو ڈاٹا اور اعداد و شمار حکومت کے پاس موجود ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت ایسی جامع پالیسیاں تیار کرے اور ضرورت پڑنے پر اصلاحات نافذ کرنے سے بھی گریز نہ کرے جن کے نتیجہ میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور عوام کو اور بحیثیت مجموعی ملک کی معیشت کو استحکام حاصل ہوسکے ۔
مودی اور کانگریس قائدین کے بیانات
کانگریس قائدین میںایسا لگتا ہے کہ ایسے مسائل پر بیان بازیوں کا مقابلہ سا چل پڑا ہے جن کا پارٹی کے استحکام سے راست کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اگر ان کا پارٹی استحکام سے تعلق ہے بھی تو ان کاسر عام اظہار کرنا پارٹی کے مفاد میں نہیںہوسکتا ۔ حال میںکانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے کہا تھا کہ ہر بار مودی کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیںہوسکتا ۔ ان کی تائید میں دوسرے قائدین بھی میدان میں آگئے ہیں۔ ان میںابھیشیک سنگھوی اور ششی تھرور وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہ پارٹی کے ذمہ دار قائدین ہیں۔ انہیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ کس حکمت عملی کے ذریعہ پارٹی کو مستحکم اور مضبوط بناسکتے ہے۔ انہیںایسے مسائل پر سر عام بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے جن کا بی جے پی یا دوسری تنظیمیں اپنے فائدے کیلئے استعمال کرسکتی ہیں۔ اب جو بیانات جاری کئے جا رہے ہیں ان سے واضح طور پر بی جے پی فائدہ اٹھاسکتی ہے ۔ اگر جئے رام رمیش کا بیان درست ہو تب بھی انہیں پارٹی فورم میں اس پر تبادلہ خیال کرنا چاہئے ۔ دوسرے قائدین ان کی تائید یا مخالفت کا حق رکھتے ہیں ۔ انہیں بھی پارٹی فورم میں اپنی رائے ظاہر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر قائدین میں کچھ اختلافات ہیں بھی تو ان کے اظہار سے گریز کرتے ہوئے عوامی حلقوں میںاور میڈیا میںمتحدہ موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ پارٹی کی لائین سے ہٹ کر کوئی اظہار خیال کرتا ہے تو ایسا کرنے والوں کو بھی پارٹی فورم میں جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ جب تک کانگریس کے قائدین ایک آواز میں بات نہیںکرینگے اورا یک رائے سے کام نہیںکرینگے ان کیلئے مشکلات میںاضافہ ہی ہوتا جائیگا اور وہ پارٹی کو مستحکم کرنے میںکامیاب نہیںہوپائیں گے ۔ انہیںایسا کرنے سے پارٹی کے مفادات کو ذہن میںرکھتے ہوئے گریز کرنا چاہئے ۔