شاہین باغ کی بلقیس بانو 500بااثر مسلم خواتین میں شامل

,

   

معاشیات کے پروفیسر الہام توتھا کا نام بھی چین میں متاثرہ ایغور مسلمانوں کے حقوق کو فروغ دینے والے کی حیثیت سے فہرست میں شامل ہوا ہے


سال 2021میں دنیا کے سب سے بااثر 500مسلمانوں کی ایک فہرست تیار کرنے والے ایک ناشر نے دہلی کے شاہین باغ میں سی اے اے این آرسی احتجاج کی وجہہ سے مشہور82سالہ بلقیس بانوور ایغور معاشیات کے پروفیسر الہام توتھا کے نام شامل کیاہے۔

بانو سال 2021کی 500بااثر مسلمان خواتین میں شامل ہیں جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) اور قومی راجسٹرار برائے شہریت(این آرسی) کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں گاندھیائی طرز کے احتجاج کے ذریعہ سڑک کو بندکرکے مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کیاتھا‘ دنیا بھرکی اپنی جانب توجہہ مبذول کروانے میں وہ کامیاب رہی ہیں۔

ابتداء میں چند ایک مسلم خواتین بانو کے اس احتجاج میں شامل ہوئی تھیں۔ مگر جیسے شعور میں اضافہ ہوا مختلف مذاہب‘ طبقات‘ عمر کے لوگوں میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے اس کاز میں وہ شامل ہوتے گئے تھے۔

وہ این آ رسی جس کی مخالفت کی گئی ہے اس نے آسام میں اپنارنگ اس وقت دیکھایا جب مسلمانوں کو پیدائش کا صداقت نامہ فراہم کرتے ہوئے اپنے شہریت ثابت کرنے کا استفسار کیاگیاتھا۔

غور طلب بات تو یہ ہے کہ اس ملک کی آبادی کا بڑا حصہ دستاویزات کی ترتیب میں ناکام ہے اور مسلمانوں کو اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑا رہا ہے۔

جو لوگ دستایزات پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں انہیں تحویلی سنٹرس میں بھیج دیاگیا ہے۔

مذکورہ سی اے اے کو این آرسی کی ساتھ متعارف کروایاگیاہے‘ جو تمام کو تحفظ فراہم کرتا ہے مگر مسلمان اور دیگر پسماندگی کاشکار گروپس‘ این آرسی کاشکار ہورہے ہیں۔ بلقیس جو دادی کے نام سے مشہور ہیں‘ 100دنوں تک سی اے اے‘ این آرسی کے خلاف احتجاج کیا جو دہلی کے مختلف 12مقامات تک پھیلا اور ملک کے دیگر حصوں تک بھی یہ احتجاج پہنچا جس میں لاکھوں لوگ شامل بھی ہوئے تھے۔

یہ احتجاج ملک میں کویڈ19کے معاملات میں اضافہ کی وجہہ سے روک دیاگیاتھا۔ معاملات میں اضافہ کے ساتھ سپریم کورٹ نے عوامی مقامات پر منعقد کئے جانے والے احتجاجی مظاہروں کو ناقابل قبول قراردیاتھا۔

مگر پرعزم آوازیں اب بھی جدوجہد سے بھری ہیں اور ملک کا مستقبل کا فیصلہ ہوناابھی باقی ہے


الہام توتھا: ایغور جہدکار
الہام توتھا جو کہ ایغور ماہرمعاشیات کے پروفیسر ہیں علیحدگی پسندسرگرمیوں کاالزام عائد کرتے ہوئے تین سالوں تک گھر والوں سے رابطہ کرائے بغیر2014میں جیل میں بندکردیاگیاتھا۔

الہام ایغوروں کے حقوق ان کی تہذیب کی وکالت کرتے ہیں اور چین حکومت کے ان کے ساتھ تکلیف دہ سلوک کی روشنی میں مواقعوں کی کمی پر وہ سوال اٹھاتے رہے ہیں۔

سال2009میں ایغوروں اوردراندز ہان پناہ گزینوں کے درمیان تصادم کے بعد توتھا کو گرفتارکرلیاگیاتھا مگر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ کی وجہہ سے اندرون ایک ماہ انہیں رہا کردیاگیاتھا۔

تاہم جنوری 2014میں انہیں دوبارہ گرفتار کرلیاگیا اور تب سے وہ قید میں ہی ہیں۔

بڑے پیمانے پر نگرانی والے ایغور علاقے میں لوگوں کو بتایا جارہا ہے کہ اگر وہ ”شدت پسندانہ برتاؤ“ کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پائے گئے تو گرفتار کرکے ”ازسر بو تعلیمی کیمپس“ بھیج دیاجارہا ہے‘ اس میں رمضان دوران روزہ رکھنا‘ داڑھی بڑھانا‘ گھروں میں جائے نماز رکھنا‘ یا پھر مذہبی کتابوں کو پاس رکھنا اس شدت پسندانہ رویہ میں شامل ہے۔

الہام کاکام تسلیم شدہ ہے اور انہوں نے کئی ایوارڈس بھی حاصل کئے ہیں‘ جو ان کی بیٹی نے اظہار خیال کی آزادی اور جارحیت کے خلاف آواز اٹھانے پر دئے گئے ایوارڈس حاصل کئے ہیں