نئی دہلی۔ شاہین باغ میں جہاں پر عورتیں سی اے اے کے خلاف ڈسمبر سے احتجاجی دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں کہ پیر کی رات میں ”ہولیکا“ کا چراغ جلایا مگر منگل کے روز نارتھ ایسٹ دہلی میں فسادات کے دوران مرنے والی یاد میں ہولی نہیں منائی ہے۔
https://twitter.com/ShaheenBagh_/status/1237082323130011656?s=20
شاہین باغ کے احتجاج سے وابستہ ریتو کوشک نے کہاکہ ”ہم نے سی اے اے‘ این پی آر اور این آرسی کا دھلنڈی جلائی اور ساتھ میں نفرت کو بھی نذر آتش کیا اور امید ہے کہ ملک میں امن کی بحالی ہوگی“۔
تاثیر نے کہاکہ ”ہم نے ’ہولیکا‘ جلایا مگر فسادات میں مرنے والوں کی یاد میں ہولی نہیں منائی اور شاہین باغ مزاحمت کی ایک پہچان ہے‘ یہ مذہب کے متعلق نہیں ہے لہذا ہر مذہب کا جشن یہاں پر منایاجاتا ہے“۔
شہریت ترمیمی بل کی مخالفت میں شاہین باغ ایک مثال بن گیا ہے اور اس سے متاثر ہوکر ملک بھر کے مختلف مقامات پر اسی طرز پر احتجاجی مظاہروں کاسلسلہ چل رہا ہے۔
تاہم کچھ دعوؤں کے ساتھ یہ سازش گشت کررہی ہے کہ مذکورہ احتجاج کی چمک کم ہورہی ہے لوگوں کی آمد میں کمی ائی ہے اور عوام کو اکٹھا کرنے کے سائرن کا استعمال کیاجارہا ہے۔
تاہم مذکورہ احتجاجیوں کا کہنا ہے کہ ایسا اس لئے کیاجارہا ہے کیونکہ حکومت کو تمام خواتین کے احتجاجیں و کے متعلق کوئی منفی بات نظر نہیں آرہی ہے۔
شاہین باغ کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیرالتوا ہے‘ جو راہ گیروں کو ہر روز ہورہی تکلیف کے حوالے سے مذکورہ احتجاج کوہٹانے کے متعلق دائر کی گئی درخواست پر مشتمل ہے۔
سپریم کورٹ نے وکلاء سنجے ہیگڈے اور سادھنا رام چندرن کا احتجاجیوں سے بات کرنے کے تقررعمل میں لایاتھا اور انہوں نے خواتین پرزوردیاتھا کہ وہ ”ہولی کا تحفہ“ کے طور پر جگہ خالی کردیں
۔ثالثی گروپ نے بالواسطہ احتجاجیوں پر زوردیا کہ وہ ہولی سے قبل احتجاج کے مقام سے ہٹ جائیں ”ہم اپنی بہنوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہولی کے موقع پر ہندوستان کو شاہین باغ سے محبت کا پیغام بھیجیں گے۔ بہنیں قبل ازوقت ہولی کاتحفہ دیں گے۔
ہم اس ماہ ہولی کا تہوار منانے والے ہیں۔ ہم ہولی کے موقع پر ایک دوسرے سے بغلگیر ہوں گے“