مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات کئی مثالیں قائم کرتے جا رہے ہیں۔ ایسے بے شمار واقعات و تبدیلیاں ہو رہی ہیں جو ملک میں پہلے کہیں شائد ہی دیکھنے میں آئی ہوں۔ بنگال اور آسام کے انتخابات میں سب سے زیادہ اہم بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ الیکشن کمیشن کی غیرجانبداری پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ کمیشن کے کچھ فیصلوں اور اقدامات پر عوام کو شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے ہیںاور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی ان پر سوال کیا جا رہا ہے ۔ آسام میں ایک بی جے پی امیدوار کی گاڑی سے پولنگ کے بعد ووٹنگ مشین دستیاب ہوتا ہے لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ معمول کا عذر پیش کرتے ہوئے کمیشن بری الذمہ ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح بنگال میں بھی بے شمار واقعات پیش آ رہے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ رائے دہندوں پر فائرنگ تک کردی گئی ہے لیکن کمیشن محض مخصوص معاملات پر نوٹ لیتے ہوئے اقدامات کر رہا ہے ۔ چیف منسٹر ممتابنرجی کو الیکشن کمیشن نے کچھ الفاظ کے استعمال پر سزا سنائی اور انہیں انتخابی مہم میں حصہ لینے سے 24 گھنٹوں کیلئے روک دیا گیا ۔ آسام میں ایک بی جے پی وزیر کی جانب سے انتخابی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔ دھمکیاں دی گئیں لیکن وہاں پہلے ایک سزا سنائی گئی اور پھر اس میں ترمیم کردی گئی ۔ دوسرے وزیر کی جانب سے بھی دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا گیا لیکن اس پر خاموشی اختیار کرلی گئی اور جہاں تک مغربی بنگال کی بات ہے وہاں تو انتخابی قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں لیکن کمیشن ان پر خاموش ہے ۔ بی جے پی کے قائدین عوام کو مزید فائرنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن کمیشن خاموش ہے ۔ اشتعال انگیز نعرے لگائے جا رہے ہیں لیکن کمیشن خاموش ہے ۔ ووٹرس کو دھمکایا جا رہا ہے اور انہیں پولنگ بوتھس میں جانے سے روکا جا رہا ہے لیکن کمیشن کی جانب سے کسی طرح کی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ۔ جہاں تک انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کا سوال ہے اگر یہ کوئی بھی کرتا ہے تو اس کی سیاسی وابستگی اور عہدہ اور رتبہ کا خیال کئے بغیر کارروائی کی جانی چاہئے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے ۔
یہ بات ملک کا ہر عام شہری بھی جانتا ہے کہ انتخابات میں مذہب اور ذات پات کے نام پر ووٹ مانگنے کی اجازت نہیں ہے لیکن آج بنگال میں بی جے پی کی ہر انتخابی ریلی میں چاہے اس سے وزیر اعظم خطاب کر رہے ہوں یا پھر وزیر داخلہ یا دوسرے قائدین خطاب کر رہے ہوں مذہب کا کھلا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ سارا ملک جانتا ہے کہ ’’ جئے شری رام ‘‘ کے نعرے خالص مذہبی نعرے ہیں اور بی جے پی کی ہر انتخابی ریلی کی شروعات اور اختتام ان ہی نعروں سے ہو رہا ہے ۔ اس نعرہ کو انتخابی مسئلہ بنادیا گیا ۔ یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ ممتابنرجی کو اس نعرہ سے الجھن ہوتی ہے ۔ اس نعرہ کو استعمال کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی بی جے پی کی جانب سے ہر لمحہ کوشش کی جا رہی ہے لیکن الیکشن کمیشن اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتا ۔ حد تو یہ ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی ریلیوں میں یہ نعرے لگائے جا رہے ہیں اور انہیں خود بھی انتخابی قوانین کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن اس کا کوئی نوٹ لینے کو تیار نظر آتا ہے ۔ جس وقت ممتابنرجی کے حلقہ انتخاب نندی گرام میں ابھی پولنگ چل رہی تھی پڑوس میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کردیا کہ ممتابنرجی نندی گرام میں الیکشن ہار گئی ہیں ۔ کیا یہ انتخابی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہے ؟ ۔ یہ خلاف ورزی کسی اور نے نہیں بلکہ خود وزیر اعظم نے کی ہے ۔ اس کے باوجود بھی الیکشن کمیشن کی جانب سے اس کا کوئی نوٹ نہیں لیا گیا اور نہ ہی کسی طرح کی تادیبی کارروائی کی گئی ۔
بنگال میں انتہائی طویل وقت تک یعنی آٹھ مراحل میں انتخابات کا شیڈول تیار کیا گیا ۔ اس کا الیکشن کمیشن کے پاس اپنا کوئی جواز ہوسکتا ہے لیکن اس بات کا کیا جواز ہے کہ جس دن کسی ایک مرحلہ کی پولنگ ہوتی ہے وزیر اعظم اسی دن کسی دوسرے مرحلہ والے علاقوں میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہیں ؟ ۔ کیا اس طرح سے وزیر اعظم پولنگ پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں ؟ ۔ کیا کمیشن نے اس کا نوٹ بھی لیا ہے ؟ ۔ کیا کمیشن کو اس کا نوٹ لینے اور قواعد کی پابندی کروانے کیلئے آگے نہیں آنا چاہئے ؟ ۔ جس طرح سے ممتابنرجی کو ہی نشانہ بناتے ہوئے کارروائی کی گئی ہے اس نے ایک بار پھر کمیشن کی غیر جانبداری پر سوال پیدا کردئے ہیں اور اس کی کمیشن کو وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔
