نیویارک ۔ 23 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) وزیر اعظم عمران خان نے پیر کو نیو یارک میں کونسل آف فارن ریلیشنز نامی تنظیم کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں طالبان اور امریکہ کے درمیان کوئی معاملات نہ ہونے کی خبر کا علم صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ایک ٹویٹ سے ہوا تھا۔ انہوں نے کہا، ”اچھا ہوتا کہ مذاکرات کا سلسلہ ختم کر دینے سے پہلے ہم سے مشاورت کی جاتی۔‘‘ عمران خان نے کہا کہ جب جنگ اور مذاکرات دونوں ساتھ ساتھ جاری رکھے جائیں، تو نتیجہ اکثر یہی نکلتا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ جاری سرد مہری کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا، ”مجھے ہندوستان سے بہت پیار اور عزت ملی۔ لیکن میں پاکستان سے بھی زیادہ ہندوستان کے لیے پریشان ہوں۔ ہندوستان درست سمت میں نہیں جا رہا۔ ہندوستان میں ہندتوا کی سوچ حاوی ہوگئی ہے۔ آپ کو برا بننے کے لیے کسی سے نفرت کرنا پڑتی ہے اور اسی خیال نے گاندھی کو قتل کیا اور اب یہی سوچ ہندوستان کو لے کر چل رہی ہے۔‘‘ عمران خان نے کہا کہ پاکستان مذاکرات کی میز پر بیٹھے تو ہندوستان نہیں آتا، جب پاکستان دوطرفہ بات چیت چاہتا ہے، تو ہندوستان مذاکرات سے انکار کر دیتا ہے اور جب پاکستان بین الاقوامی ثالثی کی بات کرتا ہے، تو ہندوستان کہتا ہے کہ کشمیر تو دوطرفہ مسئلہ ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ وہ دنیا کے مختلف رہنماؤں سے ملاقاتوں میں پاک ۔ ہندوستان تعلقات اور کشمیر کا مسئلہ اٹھائیں گے۔چند روز پہلے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا، ”میں جنگ کا حامی نہیں ہوں۔ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔ آپ القاعدہ کے پیچھے جائیں، تو آپ اسلامک اسٹیٹ تخلیق کر دیں گے۔ اگر یہ مسئلہ مجھے حل کرنا ہو تو میں اس مسئلے کو سفارتکاری سے حل کرنے کی کوشش کروں گا۔‘‘پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں فوج کو سیاست میں کرپٹ حکومتوں کی وجہ سے جگہ ملی لیکن جب سے ان کی حکومت اقتدار میں آئی ہے، تب سے فوج اور حکومت ایک پیج پر ہے۔ عمران خان نے کہا، ”ہم امن چاہتے ہیں۔ ہم نے کرتار پور راہ داری کو کھولا اور افغانستان کے صدر کو پاکستان آنے کی دعوت دی، میری حکومت کی ہر پالیسی کو پاکستانی فوج کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج نے اپنے بجٹ میں کٹوتی کی ہے، ایسا پہلے نہیں ہوا تھا۔ ماضی میں ایسا ہو سکتا ہے کہ فوج اور حکومتیں ایک صفحے پر نہیں تھیں، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔‘‘