مری بندگی میں پنہاں ہے عروجِ کامیابی
یہ مری جبیں کی قسمت جو ملا وہ آستانہ
ترکی میں بالآخر دوسرے راونڈ کے انتخابات میں رجب طیب اردغان نے صدارتی انتخاب جیت لیا ہے ۔ راست صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں اردغان .5 فیصد ووٹوں کی کمی سے انتخاب نہیں جیت سکے تھے ۔ بعد میں ایک اور امیدوار نے اردغان کی تائید کی اور پھر اتوار کو دوسرے راونڈ کی پولنگ ہوئی اور ووٹوں کی گنتی میں اردغان نے اپنی کامیابی درج کروائی ۔ اردغان کی کامیابی کے بعد ان کے حامیوں میں جشن کا ماحول پیدا ہوگیا اور وہ سڑکوں پر اتر کرجشن منانے لگے ۔ اردغان نے خود اپنے حامیوں اور ترک عوام سے خطاب کرتے ہوئے اس کامیابی پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ ترکی کو ترقی کی راہ پر آگے لیجانا چاہتے ہیں۔ اس انتخابی نتیجہ کا نہ صرف ترکی پر بلکہ مغربی دنیا اور مشرق وسطی پر بھی اثر پڑے گا ۔ کچھ گوشوں کی جانب سے مخالفین کو ہوا دیتے ہوئے اردغان کو شکست سے دو چار کرنے کی پوری کوشش کی گئی ۔ ان کے خلاف مہم بھی چلائی گئی ۔ عوام میں پروپگنڈہ کروایا گیا ۔ اس بات کو یقینی بنانے ہر ہتھکنڈہ اختیار کیا گیا کہ کسی طرح سے اردغان کو شکست سے دوچار کردیا جائے ۔ ترکی میں اردغان 20 سال بعد بھی دوبارہ اقتدار جیتنے میں کامیاب ہونے والے پہلے لیڈر بن گئے ہیں۔ وہ پندرہ سال کا مصطفی کمال اتاترک کا ریکارڈ پہلے ہی توڑ چکے ہیں۔ انہوں نے وزارت عظمی سے کامیابی کا سلسلہ شروع کیا تھا اور بعد میں صدارتی نظام حکومت میں تبدیلی کے بعد بھی وہ ترک عوام کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ حالانکہ اردغان کے مخالف امیدوار نے بھی سخت مقابلہ کیا ہے اور دونوں کے مابین کانٹے کی ٹکر ہوئی لیکن جیت بالآخر اردغان کو حاصل ہوئی ۔ اردغان مغربی ممالک کیلئے پسندیدہ امیدوار نہیں ہیں ۔ اس اعتبار سے ان کی کامیابی پر مغربی ملکوں میں کسی حوصلہ افزاء رد عمل دیکھنے کو نہیں ملا ۔ اس کے برخلاف یہ سمجھا جاتا ہے کہ اردغان کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ وہ روس کے حامیوں میں شمار کئے جاتے ہیں اور انہوں نے روس اور یوکرین کے مابین جنگ کو ختم کروانے کیلئے اپنے طور پر کوششیں بھی کی تھیں۔ یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوپائیں۔
ترکی کے انتخابی نتائج اس اعتبار سے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ ترکی اپنے قیام کی ایک صدی مکمل کرچکا ہے ۔ سال 2023 ترکی اور اس کے وجود کیلئے اہمیت کا حامل بھی کہا جا رہا ہے اور اس میں اردغان کی کامیابی ترکی کو آگے کے سفر میں معاون ثابت ہوسکتی ہے ۔ ترکی کے مغربی ممالک کے ساتھ جو اختلافات ہیں ان کی بنیاد پر مغربی ممالک اردغان کو پسند نہیں کرتے ۔ مغربی ممالک کا یہ اعتراض ہے کہ اردغان کے دور حکومت میں ترکی آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ مغربی ممالک کو یہی بات پسند نہیں ہے جبکہ ہر ملک کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی ترجیحات اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرے اور اپنے لئے بہتر خارجہ پالیسی اختیار کی جائے ۔ اس صورتحال کو مغربی ممالک پسند نہیں کرتے ۔ وہ ترکی کو بھی دوسرے ممالک کی طرح استعمال کرنا اور اپنے اشاروں پر ناچنے کیلئے مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال کو ترکی اردغان کی صدارت میں قبول کرنے تیار نہیںہیں ۔جس طرح مشرق وسطی کے کئی ممالک نے مغرب نے اپنی مرضی کے کٹھ پتلی حکمران مسلط کئے ہیں اور ان کے ذریعہ اپنے مفادات کی تکمیل میں جٹا ہوا ہے وہ حکمت عملی ترکی میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ ترکی مغرب کے اثر کو قبول کرنے کی بجائے آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کررہا ہے اور اردغان مغرب کی شرائط کو تسلیم کرنے تیار نہیںہیں۔ اس کے برخلاف وہ روس اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے قریبی تعلقات کو استوار کرنے میں اب تک کامیاب رہے ہیں۔
امریکہ اور مغربی ممالک کے اثرات کے تحت مشرق وسطی کے کچھ ممالک بھی ترکی سے اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ ترکی کے وجود کو بمشکل تمام ہی برداشت کرپاتے ہیں۔ وہ بھی ترکی پر اثر انداز ہونا چاہتے تھے اس کیلئے مغرب کا ساتھ گوارا کیا گیا لیکن اردغان اس میں بھی رکاوٹ بنتے نظر آئے ہیں۔ جہاں تک داخلی معاملات کا سوال ہے اردغان کیلئے یہ کامیابی خارجی سطح پر جتنی اہمیت کی حامل ہے اتنی ہی داخلی سطح پر ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ ترک عوام کے حالات کو بہتر بنانے ‘ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے جیسے امور پر اردغان کو توجہ کرتے ہوئے ایک جامع حکمت عملی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔