بیجنگ۔ چین نے اپنے ملک کے عازمین حج کے لئے نئے قواعد کا اعلان کیاہے۔ اس میں 24ارٹیکلس شامل ہیں۔
عازمین حج کے لئے نئے قواعد
قواعد کے مطابق چین اسلامک اسوسیشن ہی مقدس سفر کا انتظام کرسکتا ہے۔ کسی دوسری تنظیم یا ادارے یا پھر فرد کو فریضہ حج کے انتظام کی اجازت نہیں ہوگی‘
چین کے عازمین کو اپنے ملک کے قوانین اور قواعد پر عمل پیرا ہونا ہوگا اور ”مذہبی شدت پسندی“ کی مخالفت کرنا ہوگا۔چین میں 20ملین مسلمان ہیں جس میں زیادہ تر یاتو ایغور ہیں یا پھر ہوائی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔
حج
حج سال میں ایک مرتبہ کیاجاتا ہے۔ اور اسلام کے پانچ ستون میں سے ایک ہے۔ ہر سال 10ہزار عازمین فریضہ حج ادا کرتے ہیں۔
زنچیانگ میں چین کی جانب سے ”تہذہبی نسل کشی“ کی جارہی ہے۔ دس ملین ایغور مسلمانوں کا یہ گھر ہے۔ جو وسائل کی مناسبت سے کافی دولت مند صوبہ مانا جاتا ہے۔
حال ہی میں اٹلانٹک نے خبر دی ہے کہ زنچیانگ میں چین ”تہذیبی نسل کشی“ کررہا ہے‘ تاکہ ایغوروں اور ہوائیوں کی مذہبی‘تہذیبی شناخت کو ختم کیاجاسکے۔
ایک امریکی میگزین اٹلانٹک میں صحافی یسمین سیرہان نے لکھا ہے کہ”مذہبی اقلیتوں کے خلاف جارحانہ اقدامات قابل تشویش ہیں۔
مذکورہ چین کی حکومت نے ایک ملین سے زائد لوگوں کو قیدی بنائے رکھا ہے‘ جہاں پر ان کے ساتھ زیادتیاں کی جارہی ہیں او رجبری نسبندی بھی کی جارہی ہے“۔
انہوں نے مزیدلکھا کہ ”ایغوروں کو نشانہ بنانے محض کیمپوں تک محدود نہیں ہے۔ سال2016سے درجنوں قبرستانوں اور مذہبی مقامات کو تباہ کردیاگیاہے۔ترقیاتی چین کی حمایت میں ایغور زبان کو زنچیانگ اسکولوں میں ممنوع قراردیاگیاہے۔
اسلامی تعلیمات پر عمل آواری‘ او ر ایغور عقائد پر عمل کو ”شدت پسندی کی نشانی“ کے طور پر حوصلہ افزائی سے محروم کیاجارہا ہے“