عدالتیں نشانہ ‘ نراج پیدا کرنے کی کوشش

   

وجود اس کا غموں کے پہاڑ جیسا تھا
مگر ملا تو بہت اُس کو شادماں دیکھا
بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ ملک میں نراج پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اسی مقصد کیلئے مختلف گوشوں سے عدالتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے کردار پر سوال پیدا کرتے ہوئے عوام میںنراج پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ملک کے مفاد میں ہرگز نہیں ہوسکتی ۔ جس طرح سے نائب صدر جمہوریہ نے سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے پر اپنی ناراضگی جتائی تھی وہ خود قابل تشویش تھی ۔ اب بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے بھی عدالتوں پر ایسے تبصرے کئے جا رہے ہیں جو عدالتی وقار کو مجروح کرنے کے مترادف ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عدالتوں پر دباؤ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایسے ریمارکس کئے جا رہے ہیں جن کے نتیجہ میں عوام میں عدالتوں کا وقار مجروح ہوجائے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے حال میںمنظورہ متنازعہ وقف ترمیمی قانون کی جب سپریم کورٹ میںسماعت شروع ہونی تھی اس سے قبل ہی مرکزی وزیر کرن رجیجو نے ایک بیان دیا تھا ۔ انہوں نے دبے الفاظ میںعدالت پر دباؤ بنانے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ انہیںیقین ہے کہ عدالتیںمقننہ کے امور میںمداخلت سے گریز کریں گی ۔ کسی بھی شکایت یا درخواست کی سماعت کرنا یا نہ کرنا یہ مکمل عدالتوں کا اختیار ہے اور عدالتیں ان درخواستوں کی نوعیت کو دیکھ کر فیصلہ کرتی ہیں کہ ان کی سماعت ہونی چاہئے یا نہیں۔ مرکزی وزیر نے ایک بیان دیتے ہوئے عدالت پر ایک طرح سے دباؤ بنانے کی کوشش کی تھی ۔ پھر نائب صدر جمہوریہ نے بھی عدالتی فیصلے پر کھلے عام ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور کچھ نامناسب ریمارکس کئے تھے ۔ اب بی جے پی کے دو ارکان پارلیمنٹ نے عدالت پر اپنی حدود سے تجاوز کرنے کا الزام عائد کردیا ۔ اس طرح خود ان ارکان پارلیمنٹ نے اپنے حدود کو پھلانگنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ ریمارکس عدالتی وقار کومجروح کرسکتے ہیں جبکہ عدلیہ ہندوستان کی جمہوریت کا ایک باوقار اور مستحکم ترین ستون ہے ۔
بی جے پی نے ان ارکان پارلیمنٹ کی سرزنش کرنے یا ان سے جواب طلب کرنے کی بجائے محض ان کے بیانات سے اظہار لا تعلقی کردیا ہے ۔ جو لوگ ملک کی سپریم کورٹ پر سوال کر رہے ہیں ان سے بی جے پی خود کوئی سوال کرنے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی ان سے جواب طلب کیا جا رہا ہے ۔ یہ بی جے پی کا ڈوغلا پن ہی کہا جاسکتا ہے اور عدالتی وقار سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہی ہے ۔ یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ میں کئی اہم مسائل پر مقدمات کی سماعت ہونے والی ہے ۔ وقف ترمیمی قانون پر عدالت نے حکومت سے چبھتے ہوئے سوال پوچھے تھے ۔ اس پر عارضی التواء جاری کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن میں تقررات کا مسئلہ زیر التواء ہے ‘ دیگر کئی امور بھی عدالت کی سماعت میں آنے والے ہیں ۔ ایسے میں بی جے پی کی جانب سے عدالتوں پر دباؤ بنانے کی کوشش شروع کردی گئی ہے جو ملک کی جمہوریت کیلئے خطرناک کہی جاسکتی ہے ۔ بی جے پی نے ملک کے کئی اہم دستوری اداروں کی اہمیت کو مشکوک بنادیا ہے اور ان پر اپنا تسلط قائم کرتے ہوئے من مانی انداز میں کام کر رہی ہے ۔ ایسے میں عوام اور اپوزیشن سب کیلئے عدالتیں ہی ایک واحد راستہ رہ گئی ہیں جہاں انصاف رسانی ہوسکتی ہے ۔ حکومت اب اس دروازہ کو بھی بند کرنا چاہتی ہے اور عدالتوں پر دباؤ بناتے ہوئے ان کے کردار کو مشکوک کرنا چاہتی ہے جو انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت عمل ہے ۔ یہ حکمت عملی نہ ملک کے مفاد میں کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی یہ حکمت عملی ملک کی جمہوریت کے حق میں بہتر ہوسکتی ہے ۔ اس سے نراج کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے ۔
بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کے انتہائی قابل اعتراض بیانات کے علاوہ سوشیل میڈیا پر بھی عدالتوں کے تعلق سے نازیبا تبصرے اور ریمارکس شروع کردئے گئے ہیں۔ یہ ایک سوچی سمجھی مہم کا حصہ ہوسکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ بی جے پی ان دو ارکان پارلیمنٹ سے جواب طلب کرتی ۔ ان کی سر عام سرزنش کی جاتی اور انہیںاس طرح کی بیان بازیوں سے روکا جاتا ۔ تاہم محض اظہار لا تعلقی کرتے ہوئے بی جے پی نے بری الذمہ ہونے کی کوشش کی ہے جو قابل افسوس ہے ۔ عوام کو اس معاملے میںچوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔