قران

   

اَلرَّحْـمٰنُ … رحمٰن نے ۔
نخلہ کے مقام پر جب جنّات کا ایک گروہ حضور علیہ الصلوۃ والسّلام کے پاس سے گزرا تو اس وقت حضور (ﷺ) نماز صبح میں اسی سورت کی تلاوت کر رہے تھے، اور یہ واقعہ بھی ہجرت سے پہلے مکّی زندگی کا ہے۔ ان روایات صحیحہ کے بعد اس کے نزول کے بارے میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ اسمائے حسنیٰ میں سے الرحمٰن کے ساتھ اس سورت کا آغاز ہورہا ہے۔ الرحمٰن رحمت ولطف کی ان وسعتوں اور بلندیوں کو شامل ہے جن کا تصوّر کرنا بھی ہمارے احاطۂ امکان سے باہر ہے۔ انسان کو اس نے پیدا فرمایا، اس میں ایسی صلاحیتیں ودیعت کیں اور ایسی استعدادوں کی تخم ریزی کی جن میں سے بعض کا تعلق اس کی روحانی بالیدگی اور ارتقاء سے ہے اور بعض کا تعلق اس کی مادی زندگی کی نشوونما سے ہے۔پہلے اس نعمت کو بیان کیا جس کا تعلّق اس کے قلب وروح سے ہے۔ یعنی قرآن کریم کا علم اور اس کے اظہار وبیان کی قوت ، اس کے بعد آسمانی اور زمینی ان نعمتوں کا ذکر کیا جو انسان کی غذا اور اس کی صحت کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس کے ضمن میں چند احکامات بھی ارشاد فرمائے۔ ساتھ ساتھ اپنی شان کبریائی کا بھی تذکرہ کردیا۔ نوع انسانی کے ساتھ ایک دوسری نوع کا ذکر بھی یہاں خصوصیّت سے کیا گیا ہے جسے جنّ کہا جاتا ہے۔ ان دونوں کے مادۂ تخلیق میں جو فرق ہے وہ بھی بتادیا اور فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ کے بار بار تکرار سے اس حقیقت سے بھی آگاہ کردیا کہ قرآن کے مخاطب صرف انسان ہی نہیں بلکہ جنّات بھی ہیں اور جب وہ قرآن کے احکام پر عمل کرنے کے مکلّف ہیں تو واضح ہوگیا کہ وہ حضور نبی رحمت (ﷺ) کے اُمّتی ہیں اور حضور جن وانس دونوں کے نبی ہیں۔