مدھیہ پردیش میں گذشتہ دنوں میں دو انسانیت سوز واقعات پیش آئے ہیں۔ ایک واقعہ نے سارے ملک کی توجہ حاصل کرلی جبکہ دوسرا واقعہ زیادہ توجہ حاصل نہ کرسکا تاہم دونوں ہی واقعات انتہائی شرمناک اور انسانیت سوز ہیں۔ ایک واقعہ جو سارے ملک میں توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے وہ ایک قبائلی نوجوان پر پیشاب کرنے کا ہے ۔ اس واقعہ کا ویڈیو سارے ملک میں وائرل ہوا جس میں دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص ایک قبائلی نوجوان پر پیشاب کر رہا ہے ۔ یہ دعوی کیا گیا تھا کہ اس شرمناک حرکت کرنے والے کا تعلق بی جے پی سے ہے ۔ تاہم بی جے پی نے اس کی تردید بھی کردی ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور واقعہ بھی پیش آیا ہے جس میں کچھ دلت نوجوانوں کو غلاظت چاٹنے پر مجبور کردیا گیا ۔ قبائلی نوجوان پر تو کوئی الزام نہیں تھا وہ بے بسی سے کہیں بیٹھا ہوا تھا کہ ملزم نے اس کو اپنی غیر انسانی حرکت کا نشانہ بنایا ۔ دلت نو جوانوں پر لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کا الزام تھا جس کے بعد انہیں غلاظت چاٹنے پر مجبور کردیا گیا ۔ یہ دونوںہ ی واقعات انتہائی شرمناک ‘ انسانیت سوز اور انتہائی مذموم ہیں۔ چونکہ مدھیہ پردیش میں آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی ریاست میں اپنے اقتدار کو بچانے کی فکر میں ہے اس لئے اس نے قبائلی نوجوان کے ساتھ کی گئی حرکت کا سخت نوٹ لیا ہے ۔ نہ صرف ملزم کے خلاف سخت ترین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے بلکہ اسے گرفتار کرلیا گیا ۔ اس کے خلاف بلڈوزر کارروائی بھی کی جا رہی ہے ۔ چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان نے اس نوجوان کو مدعو کرتے ہوئے اس کے پیر دھلائے ۔ اس کے ساتھ کھانا کھایا اور اسے اپنا دوست قرار دیا ۔ یہ سارا کچھ انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے ۔ اگر محض انسانیت دوستی کی خاطر بھی کیا گیا ہے تو یہ اقدام کافی نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک اور سماج میں ایک دوسرے طبقات کے تعلق سے عوام میں جو نفرت پھیلائی جا رہی ہے اس کو ختم کرنے پر توجہ دی جائے ۔ محض ایک واقعہ پر اس طرح دل جوئی کرتے ہوئے کوئی بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔
ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں کئی طبقات اور مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں۔ ایک مذہب کے ماننے والوں میں بھی کئی طبقات ہیں۔ ان کی اپنی روایات ہیں اور وہ اس کے پابند ہوتے ہیں۔ تاہم کسی کو بھی یہ اختیار اور حق نہیں دیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ اس طرح کی ذلیل اور شرمسار کردینے والی حرکت کرے ۔ ویسے تو مدھیہ پردیش میں کئی واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ملک کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے لیکن ایسا کرنے والے قاتلوں کے خلاف کوئی سخت یا جامع کارروائی نہیں کی گئی بلکہ ان ملزمین کو بچانے کی کوشش کی گئی ۔ انہیں جیلوں سے ضمانتیں دلوائی گئیں اور جیل سے باہر آنے کے بعد انہیں گلپوشی کرتے ہوئے تہنیت بھی پیش کی گئی ۔ قبائلی نوجوان کے پیر دھلانا در اصل چیف منسٹر کا انتخابی ہتھکنڈہ ہے ۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے سماج میں کس قدر ذہنی پراگندہ لوگ رہنے بسنے لگے ہیں۔ انسانیت کو شرمسار کیا جا رہا ہے اور ایسی حرکت کی جا رہی ہے جس کی مہذب سماج میں کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی ۔ اس ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے ایسی حرکتیں کی جا رہی ہیں ۔ ہمارے سماج میں تو جانوروں کو بھی ایذا رسانی کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن انسانوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ انتہائی شرمسار کردینے والا ہے ۔ محض ایک نوجوان کو طلب کرتے ہوئے اس کے پیر دھلانے یا اسے کھانا کھلانے یا دوست قرار دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔
سماج میں اس طرح کی ذہنیت کو ختم کرنے کیلئے اور ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ ہر انسان کو مساوی حقوق اور درجہ حاصل ہے ۔ کوئی اپنے مذہب یاذات پات کی وجہ سے دوسروں سے اعلی یا برتر نہیں ہوسکتا ۔ ذات پات کے نظام کے خلاف ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کی ہے لیکن اس طرح کے واقعات اس ساری جدوجہد کو بے سود کر رہے ہیں۔ سماج میں اعلی و ادنی کا جو تصور عام کردیا گیا ہے اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے خلاف سماج میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور ہر ایک کو اس کے حقوق اور سماج میں موقف و مرتبہ دینے کیلئے پہل کی جانی چاہئے ۔