مزدور بھوکے، خوف زدہ اور فکرمند ہیں

   

برکھا دت
ایک ایسے وقت جبکہ ہم سارے کورونا وائرس کے خطرہ سے گذررہے ہیں، ایسے میں جب ہم تاریخ کے اِس غیر معمولی وقت پر نظر دوڑاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس بحران کے دوران غریبوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا یعنی ہم نے اپنے ملک کے غریب شہریوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ گزشتہ 31 دنوں سے مجھے شمالی ہند کے مختلف مقامات کا سفر کرنے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔ ہر جگہ یہ تلخ حقیقت میرے سامنے آئی کہ نقل مکانی کرنے والے ہزاروں لاکھوں مزدور جسمانی اور جذباتی طور پر بے گھر ہوگئے ہیں اور وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذاررہے ہیں یہاں تک کہ بھوک کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
جاریہ ہفتہ میں نے کولکتہ کے ایسے ہی ایک ورکر کے ایس او ایس ویڈیو پیام پر ردعمل کا اظہار کیا اور اس کا مشرقی دہلی کے ایک تعمیراتی سائیٹ پر پتہ چلانے میں کامیاب ہوئی۔ جب میں اور میری ٹیم اس مقام کو پہنچی ہم نے پایا کہ ورکرس مقفل پائے گئے اور وہاں پر ایک گرد آلود بلیک بورڈ پر چاک سے ان کے اوقات کار کے بارے میں لکھا گیا تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے کام سے کب فارغ ہوسکتے ہیں۔ یہ بندھوا مزدوری یا غلامی سے کم نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا کہ وہاں 200 سے زائد ورکرس موجود تھے۔ ان میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ اس کمپاؤنڈ میں سمنٹ اور پتھر ہر طرف دکھائی دے رہے تھے۔ چنانچہ ان مزدوروں نے بتایا کہ جس وقت 24 مارچ کو لاک ڈاون کا پہلی مرتبہ اعلان کیا گیا تھا ہر مزدور کو 100 روپے اور چند کیلو خشک راشن دیا گیا۔ تب سے ہی ان مزدوروں نے کوئی تنخواہ حاصل نہیں کی۔ ان مزدوروں میں سے ایک فضل نامی مزدور نے بتایا ’’اگر یہاں ہمیں کچھ ہو جاتا ہے، ہم بیمار پڑ جاتے ہیں، کورونا وائرس کی زد میں آکر علیل ہو جاتے ہیں یا پھر دوسری بیماری سے متاثر ہوتے ہیں تو ہماری دیکھ بھال کرنے والا کون ہوگا؟ برائے مہربانی ہمیں ہمارے گھروں کو بھیج دیجئے‘‘۔

انٹرویو کے لئے سیکوریٹی گارڈس کے بیارکیڈس واحد اخراجی نکتہ تھا یعنی اس کمپاونڈ سے نکلنے کا مقام تھا۔ چنانچہ ان سیکوریٹی گارڈس نے ہمیں دھمکی دی کہ جو کچھ بھی فلمایا گیا ہے وہ ضائع کردیا جائے گا۔ ان لوگوں نے صرف دھمکیوں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہمارے تین ارکان عملہ کو پکڑ کر انہیں 40 منٹ تک ایک کمرہ میں بند کردیا جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ یقینا ہم نے خود کو بچانے کے لئے ان سے لڑائی کی لیکن جیسے ہی میں وہاں سے روانہ ہوئی مجھے یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ اگر یہ ہم جیسے لوگوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے تو پھر تصور کیجئے کہ ان مزدوروں کو روزانہ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔

ہم جو کہہ رہے ہیں یہ کسی بھی طرح لاک ڈاون کے خلاف نہیں ہے۔ ہر کسی کو لاک ڈاون کے ناگزیر ہونے کا احساس ہے اور ہر کوئی یہ قبول بھی کررہا ہے۔ لاک ڈاون 1 اور پھر لاک ڈاون 2 نافذ کیا گیا جس کے دوران خاص طور پر نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کو کافی مشکلات پیش آئیں اور پیش آرہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ لاک ڈاون 1میں نقل مکانی کرنے والے 45 ملین مزدوروں کے ساتھ جو کچھ حالات پیش آئے ہیں ان حالات سے اور غلطیوں سے لاک ڈاون 2 میں کچھ نہیں سیکھا گیا۔ پچھلے ہفتہ ہم نے دیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں مزدور سڑکوں پر نکل آئے۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں فرضی خبروں کا اہم رول رہا ہو کیونکہ ایسی خبریں پھیلائی گئی تھیں کہ ٹرینیں انہیں لے جانے کے لئے تیار ہیں۔ ایسے مناظر ہم نے ممبئی میں دیکھے ہیں یا پھر سورت میں مزدوروں کی اچانک برہمی و مایوسی کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے۔ جئے پور کے سیتارپورا صنعتی علاقہ میں جہاں سے ہم ملبوسات، قیمتی پتھر اور زیورات خریدتے ہیں وہاں کام کرنے والے بہاری مرد و خواتین اور دوسری ریاستوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں نے ہمیں بتایا کہ تنخواہوں کو بھلادیا گیا ہے اور ان کے آجرین کو ان کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ان لوگوں نے اپنے مزدوروں کی حالت زار معلوم کرنے کے لئے یا خیر خیریت دریافت کرنے ایک فون کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔ ہندوستان کے مختلف مقامات پر پھنسے ہوئے مزدوروں کی طرح ان کے پاس بھی ووٹر شناختی کارڈ ہیں اور نہ ہی راشن کارڈ۔ اس طرح وہ جن ریاستوں میں کام کرتے ہیں وہاں کی فلاحی اسکیمات سے استفادہ کرنے سے قاصر ہیں بلکہ حکومتیں جن بہبودی اسکیمات کا اعلان کی ہیں ان کے اور زمینی حقائق کے درمیان کافی خلیج پائی جاتی ہے۔
چیف منسٹر راجستھان اشوک گہلوٹ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کو ان کے اپنے علاقوں کو واپس بھیجنے کے لئے اسکریننگ کے بعد ایک مرتبہ کی خصوصی ٹرینس کا نظم کرنے کی انہوں نے حمایت کی تھی۔ اشوک گہلوٹ کے مطابق ہمیں ان مزدوروں کے جذبات و احساسات کو سمجھنا ہوگا۔ لاک ڈاون کے باعث دوسری ریاستوں میں پھنس جانے اور اپنے گھروں سے دور ہونے کے نتیجہ میں ان مزدوروں میں خوف پایا جاتا ہے۔ وہ کافی تشویش میں مبتلا ہیں ۔ ایسے میں انہیں سیکوریٹی کے احساس کی ضرورت ہے۔ اشوک گہلوٹ خبردار کرتے ہیں کہ اگر نقل مکانی کرنے والے ان مزدوروں کا مسئلہ حل نہیں کیا جاتا ہے تو اس سے عملی طور پر اقتصادی عواقب و نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سردست یہ مزدور آدھے اِدھر ہیں اور آدھے اُدھر۔ اس طرح فیکٹریز دوبارہ نہیں کھولی جاسکتیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہم نے بیرونی ممالک میں پھنسے ہوئے مڈل کلاس اور ان سے بہتر معاشی موقف کے حامل اپر مڈل کلاس ہندوستانیوں کو لانے کے لئے خصوصی طیاروں کا انتظام کیا لیکن اپنے ہی غریبوں کے لئے بسوں کا انتظام کرنا بھول گئے۔ سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ہمیں بچوں اور ماں باپ سے الگ کیا جاتا ہے تو ہم میں برہمی پیدا ہوتی ہے، حالانکہ ہمارے والدین اور بچے معاشی طور پر بالکل محفوظ ہیں۔ ایسا ہی نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کے ساتھ ہوا ہے، پہلے سے ہی وہ غربت و استحصال کا شکار ہیں اس پر انہیں لاک ڈاون نافذ کرتے ہوئے ان کے گھروں سے دور پھنسا دیا گیا ہے۔

میں غیر منظم شعبہ سے تعلق رکھنے والے ورکرس کی تائید و حمایت اور مدد کرنے والی شخصیت مکیش نرواسی کے ان الفاظ سے کافی متاثر ہوں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں نقل مکانی کرنے والے ورکروں کے ساتھ ایسا سلوک بند کردینا چاہئے جیسے وہ کوئی گداگر ہوں اور ہم انہیں خیرات دے رہے ہیں۔ ہمیں تو یہ سوچنا چاہئے کہ ان مزدوروں نے ہی ہماری فیکٹریاں تعمیر کی ہیں۔ ہماری معیشت اور ہمارے ملک کی تعمیر عمل میں لائی ہے۔ اگر ہم ان کا خیال نہیں رکھ سکتے تو پھر انہیں گھر جانے دیں۔