مسجد کا انہدام۔ باربنکی کے سابق ایس ڈی ایم کے نام ہائی کورٹ کی نوٹس جاری

,

   

ایک تحریری درخواست میں مبینہ طور پر کہاگیاہے کہ محصولات کے دستاویزات آبادی کے ریکارڈ کی گئی اراضی پر سوسالوں سے مسجد کھڑی کی گئی تھی


لکھنو۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے جواب دہندگان کو منگل کے روز اندورن تین ہفتوں میں 17مئی کے روز بارہ بنکی میں ایک مسجد کے انہدام کے ضمن میں اپنے جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔

ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے سب ڈیویثرنل مجسٹریٹ(ایس ڈی ایم) برائے رام سنہا گھاٹ بارہ بنکی کے نام بھی ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے ان پر لگائے گئے بدزبانی کے الزامات پر جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔

اس کے علاوہ درخواست گذار کو دوبارہ حلف نامہ داخل کرنے کے لئے ایک ہفتہ کی مکمل دی اور اگلے سنوائی کے لئے 27جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے۔

جسٹس رنجن رائے او رجسٹس سورابھ لاونیا پر مشتمل ایک ڈویثرن بنچ نے یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ اور حشمت علی کے علاوہ دیگر کی جانب سے دائر کردہ دوتحریری درخواست پر مذکورہ احکامات جاری کئے ہیں۔

مذکورہ بنچ نے 15جون کو معاملے پر سنوائی کرتے ہوئے عبوری راحت پر اٹھائے گئے وال پر اپنے احکامات کو محفو ظ کردیاتھا۔

بنچ نے اپنے احکامات میں یہ ریکارڈ کیاہے کہ یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے سینئر وکیل جہاں پر مسجد تعمیر کی گئی تھی ا س اراضی پر انتظامیہ کمیٹی کے مالکان حقوق پر مشتمل کوئی بھی دستاویزی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

تحریری درخواستوں میں مبینہ طور پر کہاگیاہے کہ محصولات کے دستاویزات آبادی کے ریکارڈ کی گئی اراضی پر سوسالوں سے مسجد کھڑی کی گئی تھی۔

اس بات کا بھی الزام لگایاگیا ہے کہ اس وقت کے ایس ڈی ایم رام سنہا گھاٹ نے ذاتی رنجشوں او ربدنظمی کی وجوہات کی بناء پراسے17مئی 2021کو سی آر پی سی کی دفعہ 133کے تحت استعمال ہونے والے اختیارات پر مسجد کو مسمار کردیاہے۔

درخواست گذار نے الزام لگایاہے کہ ”معاملہ 133سی آر پی سی کے دائرے اختیار سے باہر کا تھا‘ پھر بھی مذکورہ ایس ڈی ایم اپنی ذاتی انا کو مطمئن کرنے او ربدیانتی کے سبب مذکورہ بالا شق کے تحت نہ صرف بغیر کسی جواز کے او رغیر قانونی طریقے پرآگے بڑھے بلکہ مسجد کو منہدم کرنے کی تمام راہیں ہموار کی ہیں“اس بات کی بھی التجا کی کہ اس ملک میں جہاں پر قانون کی بالادستی چلتی ہے وہاں پر ذاتی انا جنونیت کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ریاست کے وکیل نے ان درخواستوں کی مخالفت کی رٹ کو برقرار کے قابل نہیں ہونے کا استدلال کیا۔ معاملے کی سنوائی کے بعد مذکورہ بنچ نے جواب دہندگان کو ان کا تفصیلی جواب داخل کرنے کا استفسار کرتے ہوئے نوٹسیں جاری کی ہیں۔