آج عید قربان ہے ۔ آج اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اپنی عزیز شئے کو قربان کرنے کا دن ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں درس دیا تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی کے آگے ہرشئے ہیچ ہے ۔ اللہ کی مرضی کے مطابق کسی بھی قربانی کیلئے ہمیں تیار رہنا چاہئے ۔ ایسا کرتے ہوئے ہی ہم دین اور دنیا دونوں میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔ ایثار و قربانی اسلام کے دو بنیادی اصول ہیں۔ دین اسلام میں بھی ان پر خاص توجہ دی گئی ہے ۔ ہزاروں برس بعد بھی سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمان آج عید الاضحی مناتے ہیں۔ حج کی تکمیل کے بعد عید منائی جاتی ہے اور اس موقع پر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قربانی کی جاتی ہے ۔ جو جانور قربان کئے جاتے ہیں ان کا نہ تو گوشت اللہ کو پہونچتا ہے اور نہ ان کا خون ۔ اللہ تبارک و تعالی قربانی کرنے والوں کی نیتوں کو دیکھتا ہے اور اسی کے مطابق انہیں اجر و ثواب سے بھی مالا مال فرماتا ہے ۔ اللہ کی راہ میں صرف ایک جانور کو ذبح کرنے کا نام قربانی نہیں ہے بلکہ اصل پیغام ابراہیم علیہ السلام یہی ہے کہ اللہ کی خوشنودی اور اس کی مرضی کے آگے ہر شئے کو قربان کردیا جائے چاہے وہ اپنی اولاد ہی کیوں نہ ہو ۔ دنیا بھر میں عید منانے والے مسلمانوں کیلئے آج کے دن یہ طئے کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں پیغام ابراہیمی کو رائج کرنے کی کوشش کریں گے ۔ آج ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کن کن خواہشات کے غلام بن گئے ہیں۔ ایسی کونسی رسومات کو اپنائے ہوئے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ روایات کے اسیر بن چکے ہیں۔ ان سب کو ترک کرتے ہوئے محض اللہ تبارک و تعالی کی خوشنودی اور اس کی رضاء کیلئے اپنی زندگیوں کو گذارنے کا عہد کرنے کا دن ہے ۔ ہمیں اپنے دلوں میں یہ جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں بہتری لانے کا عزم و حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ قربانی کا گوشت نہ اللہ کو پہونچتا ہے اور نہ ہی اللہ کو اس کی ضرورت ہے ۔ اللہ نیتوں کو دیکھنے والا ہے اور ہر عمل کا بدلا بھی نیتوں کو دیکھ کر دیا جاتا ہے اس لئے ہمیں اپنے ہر کام میں اخلاص پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔
جو جانور قربان کئے جاتے ہیں صرف ان پر اکتفاء کرتے ہوئے ہم یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم نے فریضہ قربانی کو پورا کردیا ہے ۔ ہمیں احکام الہی اور سنت نبوی ﷺ کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کیلئے ہمیں اپنے نفس کے خلاف جدوجہد کرنی پڑے گی ۔ ہم خواہشات نفسانی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ دنیا وی آسائشوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ بیہودہ روایات کے اسیر بن کر ہم نے اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات سے دور کرلیا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ آج کے دور میں قربانی کے نام پر بھی نمود و نمائش کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ خدارا اس طرح کی حرکتوں سے باز آجائیں۔ یہ دکھاوے اور ریا کاری اسلام میں قطعی قابل قبول نہیں ہے ۔ اس کے خلاف باضابطہ وعیدیں موجود ہیں۔ ہمیں نمود و نمائش میں پڑ کر اپنے اعمال کو ضائع کرنے اور خدا وند کریم کی غیض و غضب کا شکار ہونے سے گریز کرنا چاہئے ۔ قربانی کے جو حقیقی معنی و مفہم ہیں اس کا جو حقیقی پیام ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں مثبت اور بہتر تبدیلی لانے کیلئے اپنی خواہشات کی قربانی کرنے پڑے گی ۔ ہمیں ریاکاری کی لعنت کو قربان کرنا پڑے گا ۔ ہمیں سماج کے مجبور اور بے سہارا افراد کی مدد کے جذبہ کو اختیار کرنا پڑیگا ۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم میں جو حکمت ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ عید قربان کے موقع پر قوم مسلم کو ایسا عہد کرنا چاہئے کہ پھر ان کی زندگیوں میں کوئی دکھاوا نہ رہ جائے ۔ کوئی نمود و نمائش نہ رہ جائے ۔ ریا کاری سے دور دور کا بھی واسطہ نہ رہنے پائے ۔
ہمیں اسلام نے اجتماعیت کا درس دیا ہے ۔ ہر ہر اہم موقع پر اجتماعیت کو فوقیت دی گئی ہے ۔ آج ہمیں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم بحیثیت قوم کتنے متحد ہیں۔ کتنے ایک ہیں۔ ایک دوسرے سے اختلافات اور ناراضگیوں کو ہم نے زندگیوں کا ناسور بنا لیا ہے ۔ ایک دوسرے کو معاف کرنے تیار نہیں ہیں۔ ان انا کو ہمیں قربان کرنا ہوگا ۔ ایک دوسرے کو معاف کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا اور ایک متحد قوم کی حیثیت سے دنیا کو پیغام دینا ہوگا ۔ ایسا کرنے سے ہی ہم قربانی کے صحیح معنوں کو اقوام عالم کے سامنے پیش کرسکتے ہیں ۔ صرف جانور کا ذبیحہ سب کچھ نہیں ہے ۔ یہ صرف ایک ذریعہ ہے اللہ تعالی کے احکام پر سرنگوں کرنے کا ۔