مشرق وسطیٰ اور جوبائیڈن نظم و نسق

   

Ferty9 Clinic

ابھی تو راہرو محوِ سفر ہیں شوقِ منزل میں
مگر جب سامنے آجائے گی منزل تو کیا ہوگا
مشرق وسطیٰ اور جوبائیڈن نظم و نسق
امریکہ کو اس وقت مشرق وسطیٰ کی سیاست کی فکر لاحق دکھائی دے رہی ہے ۔ اس لیے صدر امریکہ جوبائیڈن کے نظم و نسق نے فلسطین ، اسرائیل اور ایران میں ہونے والے انتخابات پر کڑی نظر رکھی ہے ۔ دنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے رکھنے کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال بھی جوبائیڈن کے لیے اہم ہے ۔ بلا شبہ یہ علاقہ اس قدر حساس ہے کہ یہاں کے مسائل ہمیشہ عالمی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں ۔ واشنگٹن کی عام طور پر یہ پالیسی ہوتی ہے کہ وہ تمام ملکوں کے ساتھ جغرافیائی خطوط پر تعلقات قائم کرے ۔ روایتی جغرافیائی تقاضوں کی بنیاد پر ہی اتحاد قائم کرنے یا نئے حلیف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایران ، اسرائیل اور فلسطین میں ہونے والے انتخابات ساری دنیا میں بدلتے حالات کے تناظر میں خاص اہمیت رکھتے ہیں ۔ اس لیے امریکی صدر جوبائیڈن کے نظم و نسق نے ان انتخابات کی طرف توجہ کی ہے ۔ فلسطین میں گذشتہ 15 سال میں پہلی مرتبہ انتخابات ہورہے ہیں ۔ ان انتخابات کے نتیجے میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلیاں نہایت نمایاں ہوتی ہیں تو فلسطینی عوام کے مستقبل کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی راہ ہموار ہوگی ۔ لیکن فلسطینیوں کے مسائل کا قطعی حل نکالنے کے لیے امریکہ سمیت کئی عالمی ممالک کا موقف کیا ہوگا ، یہ غیر واضح ہے ۔ ایک طرف فلسطین میں امن کی بات کرنے والی عالمی برادری فلسطینیوں کے مستقبل کے بارے میں اتنی فکر مند نہیں ہے جتنی اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی حمایت کرنے یا اس کے منصوبہ پر خاموشی کا مظاہرہ کرنے میں ہے ۔ اسرائیل میں تازہ پارلیمانی انتخابات بھی معلق ہیں ۔ وزیراعظم اسرائیل بنجامن نیتن یاہو پر اسرائیلی عوام کا واضح فیصلہ نہ آنا بھی ایک سیاسی تعطل کو جنم دیتا ہے ۔ اسرائیل کے داخلی معاملے بھی گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔ اس طرح ایران میں اصلاحات پسندوں کے کیمپس میں سرگرمیاں جاری ہیں ۔ سبکدوش ہونے والے صدر ایران حسن روحانی اصلاحات پسندوں کے کیمپ کی قیادت کرتے ہیں لیکن آنے والے انتخابات اس بات کا ثبوت ہوں گے آیا ایران کی حکومت نے معاشی ابتری اور بحران سے عوام کو نکالنے اور انہیں راحت پہونچانے کے لیے کیا کام انجام دئیے کیوں کہ امریکہ کی سابق ڈونالڈ ٹرمپ حکومت نے ایران پر تحدیدات نافذ کر کے ایران کے معاشی امکانات پر ضرب لگائی تھی اور صدر ایران حسن روحانی نے اس صورتحال سے نمٹنے میں کامیاب کوشش کی تھی یا نہیں اس کا فیصلہ ایران کے عوام تازہ انتخابات میں کریں گے ۔ اس لیے امریکی جوبائیڈن نظم و نسق کو مشرق وسطیٰ کے ان تین ملکوں کے سیاسی معاشی اور داخلی مسائل اور امور پر توجہ دیتے ہوئے دیکھا جارہا ہے ۔ اگر اسرائیل ، فلسطین اور ایران کے انتخابات کے بعد نئے چہرے سامنے آئیں تو عوام کے اس فیصلے سے عالمی سطح پر کیا ردعمل آئے گا ، یہ بھی غور طلب ہوگا کیوں کہ امریکہ سمیت کئی ملکوں کو مشرق وسطی میں سیاسی تبدیلیوں کا انتظار ہے ۔ اگر اسرائیل میں ایک بار پھر نتائج معلق ہوں تو حالات جوں کے توں ہوں گے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسرائیل دنیا کی بڑی طاقتوں کو اپنے اشاروں پر نچاتا ہے لیکن اسرائیل کے رائے دہندے اپنے لیے ایک مستحکم حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں ۔ اسرائیل کے رائے دہندے بری طرح منقسم نظر آتے ہیں ۔ اسی لیے دو سال کے اندر چار مرتبہ انتخابات کروائے گئے ہیں ۔ اس مرتبہ بھی انتخابات کے نتائج منقسم رائے دہی کا ثبوت ہیں ۔ اگر تازہ انتخابات کے بعد کوئی اتحادی گروپ تشکیل پاتا ہے تو اسرائیل کو نئی حکومت مل جائے گی ۔ فلسطین میں بھی صدر محمود عباس نے مئی اور جولائی میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا اعلان کیا ہے ۔ بہر حال مشرق وسطی کا سیاسی نظام کیا کروٹ لے گا اور امریکی جوبائیڈن نظم و نسق مشرق وسطی کے حوالے سے کس حد تک متحرک رہے گی ، آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔۔