خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
ملک کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں گذشتہ تین ماہ سے تشدد کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ وہاں انسانیت سوز واقعات پیش آئے ہیں ۔صورتحال انتہائی سنگین ہوگئی ہے ۔ حالات مرکزی و ریاستی کسی بھی حکومت کے قابو میں نہیں آ رہے ہیں۔ حکومت اس مسئلہ کو ایسا لگتا ہے کہ عوام اور اپوزیشن کی نظروں سے پوشیدہ رکھناچاہتی ہے ۔ انسانیت کو شرمسار کردینے والے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ عورتوں اور خواتین کی ہتک کی جا رہی ہے ۔ انہیں برہنہ کرکے گھمایا جا رہا ہے ۔ ان کی عصمتوں کو تار تار کیا جا رہا ہے ۔ سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ہے ۔ متفکر گوشوں کی جانب سے اس صورتحال پر حکومت سے جواب طلب کیا جارہا ہے ۔ یہ سوال ہو رہا ہے کہ آخر کیوں منی پور میں حالات کو بہتر نہیں بنایا جا رہا ہے ۔ خواتین کی عصمتوں کی حفاظت کیوں ممکن نہیں ہو رہی ہے ۔ ان پر مظالم کا سلسلہ کیوں دراز ہوتا جا رہا ہے ۔ اس کے باوجود حکومت حرکت میں نہیں آ رہی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پارلیمنٹ میں بھی حکومت سے سوال کیا جا رہا ہے اور وزیر اعظم سے جواب کا مطالبہ ہو رہا ہے ۔ ایوان میں مباحث کیلئے اصرار کیا جا رہا ہے ۔ حکومت بھی ایوان میں مباحث کیلئے تیار رہنے کا بظاہر دعوی تو کر رہی ہے لیکن وہ کوئی واضح جواب نہیں دے رہی ہے ۔ کس قاعدہ کے تحت مباحث ہوں اور مباحث کیلئے کتنا وقت دیا جائیگا ۔ حکومت اس معاملے میں بھی محض ضابطہ کی تکمیل کرنا چاہتی ہے اور دکھاوے کی بحث چاہتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں اس پر حکومت سے تفصیلی اور مدلل مباحث کی خواہشمند ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ مباحث کے وقت ملک کے وزیر اعظم ایوان میں موجود رہیں۔ وہ ایوان میں منی پور کی صورتحال پر جواب دیں۔ تاہم حکومت ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلہ کو بھی سیاسی عینک سے دیکھتے ہوئے اصل مسئلہ کو عوام کی توجہ سے محو کرتے ہوئے دوسری ریاستوں کے واقعات پر مباحث کرو انا اور اپوزیشن کے خلاف سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ ایک طرف ملک کی خواتین کو شرمسار کیا جا رہا ہے اور حکومت اس پر مباحث کی بجائے سیاسی فائدہ پر توجہ کر رہی ہے ۔
پارلیمنٹ کا قیمتی وقت حکومت کی ہٹ دھرمی اور بضد موقف کی وجہ سے ضائع ہوتا جا رہا ہے ۔ کوئی کام کاج نہیں ہو رہا ہے اور شائد حکومت چاہتی بھی یہی ہے کہ ایوان کا وقت ضائع ہوجائے اور اسے آن ریکارڈ کوئی بیان دینے کی نوبت ہی نہ آئے ۔ وہ اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کیلئے ایوان میں بلز پیش کرتے ہوئے کسی مباحث یا تبادلہ خیال کے بغیر انہیں منظور کروالے ۔ یہ اکثریتی زعم ہے جو ہندوستانی جمہوری روایات کے مغائر ہے اور اس کے ذریعہ اپوزیشن کی آواز کو کچلا جا رہا ہے اور ان کے حق کو چھینا جا رہا ہے ۔ کچھ گوشوں کو شبہ ہے کہ جو تفصیلات اب تک منی پور سے متعلق سامنے آئی ہیں وہ بہت کم ہیں۔ وہاں بہت کچھ ہوچکا ہے اور وہاں کی صورتحال کے تعلق سے ہر ہندوستانی فکرمند ہے ۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ساری صورتحال سے ملک اور ملک کے عوام کو واقف کروائے ۔ ان تفصیلات سے آگہی اور حکومت سے جواب طلب کرنا اپوزیشن کا حق ہے ۔ وہ بھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں اور وہ بھی ملک کے عوام ہی کے نمائندے ہیں۔ وہ حکومت کے مخالف ہوسکتے ہیں لیکن ملک دشمن نہیں ہیں کہ ان سے کوئی بات ہی نہ کی جائے اور ان سے ملک کی ایک ریاست کی صورتحال کو چھپایا یا پوشیدہ رکھا جائے ۔ یہ طریقہ کار ہندوستانی جمہوری نظام کے مغائر ہے ۔ حکومت کو اپنے رویہ اور موقف پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ اسے منی پور کے تعلق سے سنجیدہ رویہ اختیار کرتے ہوئے صورتحال پر ایوان میں مباحث کروانے چاہئیں۔
بی جے پی قائدین اور مرکزی وزراء منی پور کی صورتحال کو چھپانے کیلئے ملک کی دیگر ریاستوں کے واقعات کا تذکرہ کرنے لگے ہیں۔ یہ بھی شرم کی بات ہے کہ ملک کی جن بہن بیٹیوں کی عزتوں سے کھلواڑ کیا گیا اور ان کا دامن داغدار کیا گیا اس پر بھی سیاست کی جا رہی ہے ۔ یہ تقابل کیا جا رہا ہے کہ کس ریاست میں کتناظلم ہوا ہے ۔ یہ افسوسناک اور انتہائی مذموم فعل ہے ۔ اس سے سبھی کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کا جو رویہ ہے وہ ان شبہات کو تقویت دیتا ہے کہ منی پور کی حقیقی صورتحال کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جو کچھ بھی منی پور کا سچ ہے اسے ملک کے عوام کے سامنے لایا جانا چاہئے ۔