مودی حکومت کے 9 سال

   

وہ آپ اپنا مقدر بنا نہیں سکتے
جو دوسروں کے وسیلے تلاش کرتے ہیں
مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے قیام کو 9 سال کا عرصہ ہو رہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے نو سال کی کارکردگی پر مختلف دعوے کئے جا رہے ہیں۔ مودی حکومت کے ہمنوا زر خرید میڈیا اداروں کی جانب سے بھی حکومت کی خوشامد اور چاپلوسی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ بلند بانگ دعوے کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ گذشتہ نو سال میں جو صورتحال ملک بھر میں پیدا ہوئی ہے جن حالات سے ملک کے عوام گذر رہے ہیں ان کا کہیں دور دور تک کوئی تذکرہ نہیں کیا جا رہا ہے ۔ عوام کے مسائل کو اٹھاتے ہوئے ان کی تکالیف اور پریشانیوں کو حکومت کے علم میں لانے کی کسی بھی میڈیا ادارہ کی جانب سے کوشش نہیں کی جا رہی ہے ۔ یہ در اصل میڈیا کی ذمہ داریوں سے فرار ہے ۔ در اصل آج ہندوستانی میڈیا کی اکثریت حکومت کی چاپلوسی میں ہی عافیت محسوس کرنے لگی ہے ۔ حکومت سے سوال پوچھنے والوںکو میڈیا ہی میں سماج دشمن یا ملک دشمن قرار دینے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد سے آج تک قائم ہونے والی تقریبا تمام ہی حکومتوں نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان دنیا کی ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ۔ تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہی ہے کہ حکومتوں کی ناکامیاں اور خامیاں بھی ہوا کرتی ہیں۔ غیرجانبدار اور ذمہ دار میڈیا کا یہ فریضہ ہوتا ہے کہ وہاں حکومت کی کامیابیوں کو گنوانے کی کوشش کرے وہیں حکومت کی ناکامیوںاور خامیوں کو بھی پیش کیا جائے تاکہ عوام میں یہ احساس پیدا ہوسکے کہ ان کے مسائل پر آواز اٹھانے کیلئے ملک میں ایک غیر جانبدار اور پیشہ ورانہ اعتبار سے دیانتدار میڈیا موجود ہے ۔ آج ملک کی صورتحال اس قدر ابتر ہوگئی ہے کہ محض کسی ریاست میں انتخابی کامیابی حاصل کرنے کیلئے ماحول کو داغدار کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ میڈیا میں عوامی مسائل اٹھانے کی بجائے فرقہ وارانہ منافرت کو ہوادینے والے مسائل کو پیش کیا جا رہا ہے ۔ ملک کی معاشی صورتحال ‘ بڑے اسکامس اور اسکینڈلس ‘ نوجوانوںمیں بیروزگاری ‘ مہنگائی میںبے دریغ اضافہ اور خواتین کے تحفظ جیسے مسائل کو میڈیاکی اکثریت نے کہیںپیچھے چھوڑ دیا ہے ۔
گذشتہ 9 برس میں ہندوستان میں سب سے زیادہ نقصان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ہوا ہے ۔ سماج کے دو بڑے اور اہم طبقات کے مابین نفرتوں کو ہوا دیتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششوں نے اس میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ ایک دوسرے سے متنفر کرنے کی منظم اور باضابطہ انداز میں مہم چلائی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ملک کے اہم اور دستوری اداروں پر تسلط کی کوششیں بھی ہوئی ہیں۔ عوام کے ووٹوں کے ذریعہ جمہوری انداز میں منتخب ہونے والی حکومتوں کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا گیا ہے ۔ ان حکومتوںکو انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے زوال کا شکار کردیا گیا ہے ۔ مرکز میں برسر اقتدار جماعت نے خود اقتدار حاصل کرنے کیلئے ہر ہتھکنڈے اختیار کئے ہیں۔ مرکزی زیر انتظام علاقہ کی منتخبہ حکومت کو کام کاج سے روکنے کیلئے عدالتوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے ۔ عدالتی احکام کو بھی رد کرنے کیلئے خصوصی آرڈیننس کی اجرائی عمل میں لائی جا رہی ہے ۔ ملک میںالیکشن کمیشن جیسے اہم اور ذمہ دار ادارہ کی غیر جانبداری مشکوک کردی گئی ہے ۔ مٹھی بھر حاشیہ بردار کارپوریٹس پر عنایتوں اور نوازشوں کی بہتات ہے تو ملک کے غریب عوام پر مہنگائی کا بوجھ مسلسل عائد کیا جا رہا ہے ۔ پکوان گیس کی قیمتیں دوگنی سے زیادہ ہوگئی ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل عوام کی پہونچ سے باہر ہوگیا ہے ۔ عوام کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوگیا ہے ۔ بیروزگاری انتہاء پر پہونچ چکی ہے ۔ یہ ایسے مسائل ہیںجن پر کوئی جواب نہیںدیا جا رہا ہے ۔
آج ہندوستان میں مباحث اس بات پر کروائے جا رہے ہیں کہ کس کو کیا کھانا چاہئے ۔ کیا مسلم لڑکیوں کو حجاب استعمال کرنا چاہئے ۔ کیا گوشت حلال ہونا چاہئے یا نہیں۔ فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے ۔ مسلمانوں کو کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ان کے نسلی صفایہ کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ہندو برادری کو ہتھیار رکھنے کی تلقین کی جا رہی ہے ۔ یہ صورتحال ہندوستان جیسے عظیم اور وسیع و عریض جمہوری ملک کیلئے اچھی نہیںکہی جاسکتی ۔ ملک میںفرقہ وارانہ ہم آہنگی والا ماحول پیدا کیا جانا چاہئے ۔ جمہوری اداروں کے وقار اور ان کے احترام کو یقینی بنایا جانا چاہئے ۔ سماج کے تمام طبقات کیلئے مساوی مواقع فراہم کرتے ہوئے ہندوستان کو حقیقی معنوں میں ’’ وشوا گرو ‘‘ بنانے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔
کرناٹک کی نئی حکومت
جنوبی ریاست کرناٹک میں انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ انتخابی دھند چھٹ چکی ہے ۔ نئی حکومت تشکیل پا چکی ہے ۔ ریاستی کابینہ میں آج توسیع کرتے ہوئے مکمل سرکاری کام کاج کا باضابطہ آغاز ہونے کی راہ ہموار ہوچکی ہے ۔ کرناٹک جیسی اہم ریاست میں اب حکومت کے سامنے انتخابی نعروں کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے ہونے چاہئیں۔ریاست کی ترقی اور ریاستی عوام کی بہتری کیلئے خصوصی منصوبے بنائے جانے چاہئیں۔ انتخابات کے دوران عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے ان کی تکمیل پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ ساری ریاست میں فرقہ پرستی کے زہر کو ختم کرنے اور سماج کے تمام طبقات کے مابین ایک دوسرے کے تعلق سے محبت اور بھائی چارہ کو فروغ دینے کی کوششیں ہونی چاہئیں۔ انتخابی موڈ سے باہر آتے ہوئے اب کام کاج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ آئی ٹی مرکز کے طور ریاست کے کھوئے ہوئے موقف کو بحال کیا جانا چاہئے ۔ روزگار کی فراہمی ہو یا پھر نوجوانوں کیلئے ترقی کے دیگر مواقع ہوں ان پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ سیاسی سرگرمیوں پر بریک لگاتے ہوئے عوام نے جو ذمہ داری دی ہے اس کو پورا کیا جانا چاہئے اور جو توقعات عوام نے نئی حکومت کے انتخاب سے وابستہ کی ہیں ان کو پورا کرتے ہوئے ایک مثبت اور سب کیلئے یکساں ماحول پیدا کیا جانا چاہئے ۔ یہی حکومت کی ذمہ داری ہے اور عوام نے اسی توقع سے اسے اقتدار سونپا ہے ۔