نئی دہلی۔ مہاتما گاندھی جنھوں نے اپنے منفرد عدم تشدد کی تحریک کے ذریعہ ہندوستان کو آزادی دلائی انہیں یاد کرنے کے لئے ہمیں ناتھو رام گوڈسے کے بھوت کو ہر بار باہر لانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہم اپنے سے جھوٹ کہیں گے اگر ہم اسبات پر زوردیں کہ گاندھی جی امن کے علمبردار تھے‘ محبت او رعدم تشدد کے رہنما تھے اور سخت ڈسپلن کی ایک مثال تھے اور انہیں کوئی خطرہ نہیں تھا۔
اس کی اہم وجہہ گوڈسے کا بھوت اسکو ماننے سے انکار کررہے تھا جو آزادی کے بعد سے مسلسل ہماری نصابی کتابوں میں اس کو شامل کیاگیا ہے۔
جنوری 30سال1948کو گوڈسے گاندھی جی کا قتل کیا اور اس نے سیمی اٹو میٹک بیریٹا پستول سے تین گولیاں داغی۔
اس کے پاس سے وہ پستول برآمد ہوئے اور چار زندہ کارتوس بھی ملے۔ اس نے وہاں پوجا ارچنا میں کسی دوسرے فرد پر گولی نہیں چلائی۔
اس قتل پر قانونی کاروائی 22جون 1948کولال قلعہ میں شروع ہوئی۔
سنوائی کے دوران یہ ثابت ہوا کہ مذکورہ قتل کے پس پردہ ایک سازش تھی۔
جج آتما چرن نے 10فبروری 1949کو فیصلہ سنایا۔ انہوں نے وی ڈی ساورکر کو بری کردیا اور گوڈسے کے بشمول اس کے دوست نارائن اپٹے کو موت کی سزا سنائی اور گوپال گوڈسے‘ وشنو کرکرے‘ مدن لال پاہوا‘ شنکر کشیا اور دتاتریہ پرچورے کو عمر قیدکی سزا بھی سنائی۔
ساروکر کی برات کو حکومت کے وکیل نے چیالنج نہیں کیا۔ تمام ساتوں سزا یافتہ گان نے پنجاب ہائی کورٹ میں گوہار لگائی‘ پھر شملہ میں 14فبروری 1949کو بیٹھک ہوئی۔
گوڈسے نے سزائے موت کوتسلیم کرلیامگر سنوائی کرنے والے عدالت کی جانب سے اس کے او ردیگر پانچ ساتھیوں کو دی گئی سزائے موت پر سوال اٹھائے۔
اس درخواست پر 2مئی1949ہائی کورٹ کے تین ججوں جسٹس امرناتھ بھانڈاری‘ اچارو رام او رگوپال داس گھوسلہ نے اس کی سنوائی کی۔ جرح میں گوڈسے نے ذاتی طور پر اقبال جرم کیا۔
جسٹس کھوسلے کی کتاب”مرڈر آف دی مہاتما“ انہوں نے اپنے چیف جسٹس برائے ہائی کورٹ سے سبکدوش ہونے کے بعد لکھی‘ جس میں انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ گروپ کی گاندھی جی سے مخالفت کی وجہہ کیاہے۔
انہوں نے لکھا کہ ”نفرت میں یکسانیت کی بنیاد پر یہ گروپ متحد ہوگیاتھا جس کاماناتھا کہ مہاتماگاندھی مسلمانوں کی برہمی کی وکالت کررہے ہیں“
۔سال1946میں کلکتہ میں ہوئے قتل عام کی وجہہ سے بھڑکے نفرت اورگاندھی جی کی ناکھولی فرقہ وارانہ فسادات کے دورا ن مداخلت۔
پاکستان کو 55کروڑ روپئے کی ادائیگی کے متعلق نہرو حکومت میں سردار پٹیل کے فیصلے کی واپسی کے لئے گاندھی جی کا مرن برت۔
پاکستان نے جب کشمیر سے اپنا قبضہ جمایا تو پٹیل کو اسبات کا ڈر تھا کہ وہ ان پیسوں سے ہندوستان کے خلاف استعمال کے لئے ہتھیار خریدے گا۔
گوڈسے نے پنجاب ہائی کورٹ کے سامنے بات کہی اور گاندھی جی کو ان کی مبینہ طورپر ہندوستان کو نقصان پہنچانے والی پالیسیوں کو تنقیدکا نشانہ بنایا۔
اس نے گاندھی جی کو تاریخی جنگجو شخصیتوں شیوا جی‘ رانا پرتا ب او رگرو گوبند سنگھ جیسا سمجھا تھا۔لیکن وہ اپنے غیرمعمولی کاروائی کے نتائج سے واقف نہیں تھا۔
گوڈسے نے عدالت میں کہاتھا کہ ”مختصر طور پر کہہ رہاہوں‘اگر میں گاندھی جی کو قتل کردوں گا تو مجھے اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ میں مکمل طور پر تباہ ہوجاؤں گا‘ لوگ مجھے نفرت کی نظر سے دیکھیں گے اور میں اپنے وقار کھودوں گا‘ جو میری اپنی زندگی سے کہیں زیادہ اہمیت کاحامل ہے‘
مگر دوسری صورت میں گاندھی جی کے بغیر ہندوستان کی سیاست بہتر ہوگی او رمصلح دستوں کو اختیار ملیں گے“۔ہائی کورٹ نے پرچورے اورکشٹیا کو بری کیا اور ماباقی لوگوں کی سزا برقرار رکھی۔
گوڈسے اور اپٹے کو 15نومبر 1949کے روز پھانسی کی سزاء سنائی گئی تھی۔ اس کے بعد بھی کئی ایسے مراحل ائے جس میں گوڈسے کا بھوت عدالتوں کا تعقب کرتا رہا