نتیش کمار کا پلٹ وار

   

Ferty9 Clinic

رہِ طلب میں قدم لڑکھڑا ہی جاتے ہیں
کسی مقام سے پہلے کسی مقام کے بعد
چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے بالآخر گذشتہ اسمبلی انتخابات میں ہوئی ہزیمت کا بدلہ چکادیا اور انہوں نے لوک جن شکتی پارٹی میں بغاوت کروادی ۔ سابق مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی کے چھ کے منجملہ پانچ ارکان پارلیمنٹ نے آج عملا بغاوت کردی اور ایک علیحدہ گروپ کے طور پر تسلیم کرنے کی اسپیکر لوک سبھا اوم برلا سے خواہش کی ہے۔ اس سلسلہ میں بہت جلد اوم برلا سے ملاقات بھی کی جانے والی ہے ۔ لوک جن شکتی پارٹی کے ایک رکن اسمبلی تھے جو چند ماہ قبل ہی جنتادل یو میں شامل ہوچکے ہیں۔ اب یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ آج جن پانچ ارکان پارلیمنٹ نے بغاوت کی ہے اور عملا چراغ پاسوان کو یکا و تنہا کردیا ہے وہ بھی بہت جلد باضابطہ طور پر جنتادل یو میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں یا پھر جے ڈی یو کی تائید کا اعلان کیا جاسکتا ہے ۔ آج پیش آئے واقعات ایک طرح سے نتیش کمار کا پلٹ وار ہیں۔ گذشتہ سال رام ولاس پاسوان کے دیہانت کے بعد جب پارٹی کی صدارت چراغ پاسوان کے ہاتھ آئی تھی اس وقت سے وہ نتیش کمار کو نشانہ بنانے میں مصروف تھے۔ حالانکہ ایل جے پی بھی نتیش کمار کی طرح این ڈی اے کا حصہ ہی تھی اور چراغ پاسوان بی جے پی اور خاص طور پر نریندر مودی کی تعریفوں کے پل باندھتے اور نتیش کمار کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ سال نومبر میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں نتیش کمار کی پارٹی کے خلاف اپنے امیدوار بھی میدان میں اتارے تھے ۔ نتیش کمار کا احساس ہے کہ چراغ پاسوان کے اس اقدام کے نتیجہ ہی میں اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو کو بھاری نقصان ہوا تھا اور وہ بی جے پی اور آر جے ڈی کے بعد تیسرے نمبر پر آئی ہے ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ نتیش کمار اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد ہی سے چراغ پاسوان کو سبق سکھانے کیلئے بے چین تھے اور انہوں نے چند ماہ قبل ہی سے سیاسی بساط بچھانی شروع کردی تھی جس کا نتیجہ آج پانچ ارکان پارلیمنٹ کی علیحدگی کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔ چراغ پاسوان اب پارٹی میں بالکل تنہا رہ گئے ہیں اور سیاسی اعتبار سے ان کی اہمیت بالکل ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔
چراغ پاسوان ایک ہٹ دھرم نوجوان لیڈر ہیں اور انہوں نے اپنے والد کی جانشینی سنبھالنے کے بعد سے ہی اپنے جارحانہ تیور دکھا دئے تھے ۔ وہ کسی کو خاطر میں لانے تیار نہیں تھے ۔ خود اپنے چچا پشوپتی کمار پارس سے ان کے تعلقات بگڑ گئے تھے اور ایک موقع پر چراغ نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ ان کا خون نہیں ہیں ۔ اس پر مسٹر پارس نے بھی کہا تھا کہ آج سے وہ چراغ پاسوان کے حق میں مرچکے ہیں۔ یہ خاندانی جھگڑا ایسا ہوا جس نے نتیش کمار کو صورتحال کا استحصال کرنے کا موقع فراہم کردیا ۔ نتیش کمار نے فوری مسٹر پارس سے اپنے حامیوں کے ذریعہ رابطے بنانے شروع کردئے ۔ خود بھی ان سے رابطہ رکھا اور پارٹی کے تمام پانچ ارکان پارلیمنٹ سے علیحدہ رابطوں کا بھی آغاز کیا ۔ ان تمام کی ماضی میں کسی نہ کسی موقع پر نتیش کمار نے مدد بھی کی تھی ۔ اس کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام کو رجھانے کی کوشش کی گئی ۔ ان پر واضح کیا گیا کہ چراغ پاسوان کی قیادت میں پارٹی کا کوئی وجود نہیںرہ گیا ہے ۔ وہ پارٹی اور پارٹی کے قائدین کو اہمیت اور وقعت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ خود اپنے چچا کے ساتھ بدکلامی بھی کی ہے ۔ اس صورتحال نے چراغ پاسوان کے خلاف بغاوت کی راہ ہموار کردی جس کے پس پردہ اصل محرک نتیش کمار ہی تھی ۔ نتیش کمار نے ایک طرح سے اسمبلی انتخابات میں شکست کی وجہ بننے کا چراغ پاسوان سے بدلہ چکادیا ہے اور چراغ پاسوان کو چونکہ تجربہ کی کمی ہے اس لئے وہ شاطر سیاستدان نتیش کمار کی چال کا شکار ہوکر اب یکا و تنہا ہوگئے ہیں۔
بہار کی سیاست میں ویسے تو کئی رشتہ داریاں رہی ہیں لیکن چراغ پاسوان کو اپنے چچا پشوپتی کمار پارس کی مخالفت مہنگی پڑ گئی ہے ۔ مسٹر پارس کو چیف منسٹر کی در پردہ حمایت حاصل رہی اور بالآخر سیاسی بازار میں ایک اور تماشہ پورا ہوا جس میں نتیش کمار نے اپنا بدلہ پورا کرلیا ہے ۔ چراغ پاسوان حالانکہ اب بھی اپنے چچا کو منانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ وہ ان کے گھر بھی گئے لیکن ملاقات نہ ہوسکی ‘ چراغ خود پارٹی چھوڑ کر اپنی والدہ کو صدر بنانے کیلئے بھی تیار ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس سب کچھ کیلئے اب کافی تاخیر ہوچکی ہے اور نتیش کمار کی بچھائی گئی سیاسی بساط پر چراغ پاسوان کو سیاسی طور پر مات ہوگئی ہے ۔