پارلیمانی انتخابات و میڈیا کی ذمہ داری

   

لے دے کے اپنے پاس فقط ایک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا عمل مکمل ہوتے ہی ملک بھر میں ایک طرح سے آئندہ پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں کا آغاز بھی ہوگیا ہے ۔ انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کی تقریبا تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طور پر انتخابات کیلئے اپنی اپنی تیاریوں کا آغاز کرچکی ہیں۔ حکمت عملی تیا ر کی جا رہی ہے ۔ عوام تک پہونچنے کے مسائل سوچے جا رہے ہیں۔ عوام کی تائید حاصل کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ مختلف جماعتیں ایک دوسرے سے اتحاد اور مفاہمت کے تعلق سے بھی غور و خوض کر رہی ہیں۔در پردہ سروے کروائے جا رہے ہیں۔ امکانی امیدواروںکے تعلق سے عوام میں پائے جانے والے رجحان کا بھی اندازہ کیا جا رہا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی ان تیاریوں کے دوران ملک کے نام نہاد میڈیا کی جانب سے بھی مباحث اور مختلف پروگرامس کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ ایک ایسے تناظر میں جب کہ ابھی ابھی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آئے ہیں آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے اور ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس تناظر میں یہ بات قابل غور ہے کہ میڈیا ایسے مسائل اور امور پر زیادہ توجہ کے ساتھ مباحث کا انعقاد عمل میں لا رہا ہے جہاں ملک اور ملک کے عوام کودرپیش مسائل پس منظر میںچلے جا رہے ہیں۔ ایسے مسائل کو زیادہ توجہ کے ساتھ موضوع بحث بنایا جا رہا ہے جن سے سماج میںاختلافی ماحول پیدا ہوتا ہے ۔ نزاعات کو فروغ ملتا ہے ۔ سماج کے مختلف طبقات کے مابین دوریوںمیںاضافہ ہوتا ہے ۔ ایک فرضی ماحول تیار کرتے ہوئے حقیقی مسائل کو پس پشت ڈالنے کے منصوبوں کے تحت کام کیا جا رہا ہے ۔ جس طرح سے مسائل کو طویل مباحث کے ذریعہ اجاگر کیا جا رہا ہے وہ سماج اور ملک کی خدمت نہیں بلکہ بدخدمتی ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میںبنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل پس پشت چلے جا رہے ہیں۔ صرف ایک فرضی ماحول میں عوام کو ووٹ ڈالنے کیلئے مجبور کرنے کی حکمت عملی کے تحت کام ہو رہا ہے اور اس کے باعث عوام کے مسائل جوںکے توں دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔
میڈیا کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر موقع پر اور خاص طور پر انتخابات کے موسم میں حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔ حکومتوں کی جانب سے کئے گئے وعدوں کا جائزہ لیں۔ عوام کو اس بات سے باخبر رکھا جائے کہ حکومت کے قول و فعل میں کتنا تضاد رہا ہے ۔ کتنے وعدے ایسے ہیں جنہیں پورا کیا گیا ہے اور کتنے وعدے ایسے ہیں جنہیں یکسر فراموش کردیا گیا ہے ۔ یکے بعد دیگرے مسائل پر حکومت کا موقف کیا رہا ہے ۔ حکومت کی ترجیحات کیا کچھ رہی ہیں۔ حکومت نے انتخابات سے قبل عوام سے کیا وعدے کئے تھے اور بعد میں اس کا عمل کیا رہا ہے ۔ حکومت کے کام کاج کے نتیجہ میں ملک کی کتنی ترقی ہوئی ہے ۔ معیشت کتنی مستحکم ہوئی ہے اور ملک کو عالمی سطح پر کیا مقام ملا ہے ۔ میڈیا کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپوزیشن کے نقطہ نظر کو بھی اجاگر کرتے ہوئے عوام کے سامنے پیش کرے ۔ مختلف مسائل پر اپوزیشن جماعتوں نے جو کچھ بھی موقف اختیار کیا ہو اس کا جائزہ لیا جائے ۔ اس کی خوبیوں اور خامیوں دونوں ہی کو عوام میںپیش کرتے ہوئے انہیں اپنی ایک رائے بنانے کا موقع فراہم کرے ۔ حکومت سے سوال کرے کہ اس نے اب تک کیا کچھ کیا ہے اور کیا کچھ نہیں کیا ہے ۔ تاہم ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے ۔ صرف اختلافی اور نزاعی مسائل پر مباحث کروائے جا رہے ہیں۔ روپئے کی قدر میں گراوٹ ‘ بیروزگاری ‘ مہنگائی اور معیشت کی کمزوری جیسے مسائل کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے جبکہ ہر بحث اور ہر پروگرام میں ان ہی امور پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ہمارے ملک کے میڈیا میں کئی گوشے ایسے ہوگئے ہیں جو صرف حکومت کی چاپلوسی کرنے میں مصروف ہیں۔ اقتدار بی جے پی کے ہاتھ میں ہے لیکن سوال دوسری جماعتوں سے پوچھا جاتا ہے ۔ آزادی کے بعد کی حکومتوں پر تنقید کی جاتی ہے اور گذشتہ دس سال سے جو جماعت اقتدار میں ہے اس سے سوال نہیں پوچھا جا رہا ہے ۔ اس کی ناکامیوں اور خامیوں کی پردہ پوشی کی جا رہی ہے ۔ میڈیا کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے اور عوام کو ایک ایسا حقیقی ماحول فراہم کرنا چاہئے جس میں وہ سنجیدگی کے ساتھ صورتحال کو سمجھتے ہوئے ووٹ کا استعمال کریں۔ صرف چاپلوسی میڈیا کا کام نہیں ہے ۔