ملک کی سب سے اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ نے اب پیگاسیس جاسوسی معاملہ میں ایک تحقیقاتی پیانل تشکیل دیدیا ہے ۔ یہ تحقیقات اب ایک سبکدوش جج کی قیادت میں ہوگی اور ایک آئی پی ایس عہدیدار ان کی معاونت کریں گے ۔ سپریم کورٹ نے آج اس مسئلہ پر سماعت کے دوران واضح کردیا ہے کہ سیاستدانوں‘ جہد کاروں اور صحافیوں وغیرہ کی جاسوسی کرنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے اور اس کے انتہائی سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ عدالت نے اس مسئلہ پر حکومت کے موقف کوبالکل بھی تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ حکومت کی جانب سے صرف ایک جملے میںانکار یا تردید کافی نہیں ہوسکتی ۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے کسی مخصوص الزام کی نفی بھی نہیں کی ہے ۔ اس سارے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئے اورحکومت کو عدالت کی جانب سے اپنے موقف کی وضاحت کیلئے مواقع دئے جانے کے باوجود ایسا نہیں کیا گیا ۔ پیگاسیس مسئلہ پر مرکزی حکومت ابتداء ہی سے منفی رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ۔ اس مسئلہ پر جو سنگین نوعیت کا ہی کہا جاسکتا ہے ملک کے ذمہ دار قائدین کی جانب سے کوئی وضاحت نہیںکی گئی ۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ جو ہر چھوٹی بات پر ریمارکس اور تبصرے کرنے کے عادی ہیں وہ بھی اس اہم مسئلہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے ۔ حکومت نے ایک سطر کے بیان میں واضح کیا تھا کہ کوئی جاسوسی نہیںکی گئی ۔ تاہم کئی افراد نے جن کے تعلق سے شبہ ہے کہ ان کے فونس وغیرہ ہیک کئے گئے ہیں اور ان کی جاسوسی کی گئی ہے عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے تحقیقات کی استدعا کی ہے ۔ حکومت کسی بھی اہم مسئلہ پر عدالتوں میں بھی تفصیلات بتانے سے گریز کر رہی ہے اور قومی سلامتی سے ان مسائل کو جوڑ رہی ہے تاہم آج سپریم کورٹ نے اپنی سماعت کے دوران واضح کردیا ہے کہ ہر مسئلہ کو قومی سلامتی سے جوڑتے ہوئے بھی مرکزی حکومت بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے یا انہیں یقینی بناتے ہوئے کسی کی مخالف نہیں بن سکتی ۔ اس طرح عدالت نے یہ واضـح کردیا کہ حکومت کو اس سارے معاملے کی تفصیلات کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے ۔
سپریم کورٹ نے حکومت کی اس درخواست کو بھی قبول نہیں کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کیلئے ماہرین کا ایک پیانل تشکیل دیا جاسکتا ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعہ پہلے سے مروجہ عدالتی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی اس لئے تحقیقات کیلئے ایک سبکدوش جج کی نگرانی میں تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انصاف رسانی کے معاملات میں نہ صرف انصاف کیا جانا چاہئے بلکہ یہ محسوس بھی ہونا چاہئے کہ انصاف کیا گیا ہے ۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو پیگاسیس جاسوسی جو 2019 سے جاری ہے کی تفصیل پیش کرنے کی ہدایت دی اور موقع دیا گیا لیکن صرف ایک محدود حلفنامہ ہی عدالت میں داخل کیا گیا ہے جس میں کوئی تفصیل پیش نہیںکی گئی ۔ ملک میںمختلف گوشوں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بارہا مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ پیگاسیس جاسوسی کی تفصیل عوام کے سامنے لائی جائے ۔ یہ کس کی ایماء پر کیا گیا ۔ کس ایجنسی کو ایسا کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور پیگاسیس جاسوسی کا سافٹ وئیر اسرائیل سے واقعی خریدا گیا تھا یا نہیں اور اگر خریدا گیا تھا تو اس کی قیمت کس نے ادا کی اور کس فنڈ سے رقومات ادا کی گئیں۔ حکومت نے تاہم کسی کی بھی جاسوسی کرنے سے انکار کرتے ہوئے محض چند جملوں پر مبنی ایک بیان جاری کردیا تھا جس سے ملک کے عوام یا جہد کاروں یا صحافیوںوغیرہ کو اطمینان نہیں ہوا تھا اور کئی افراد نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے حکومت کو ہدایات جاری کرنے کی استدعا کی تھی ۔
سپریم کورٹ کی جانب سے تحقیقاتی پیانل کی تشیل کے بعد کم از کم یہ واضح ہوچکا ہے کہ اس معاملے میںکچھ تو ہے جس کی تحقیقات کی جانی چاہئے اور ساری تفصیلات کو کم از کم عدالت کے سامنے لایا جانا چاہئے ۔ حکومت نے ایسا کرنے سے مسلسل اصرار کیا تھا اور عدالتوں پر بھی ایک طرح سے بھروسہ نہیں کیا گیا تھا ۔ ملک کی سب سے اعلی ترین عدالت کو کم از کم اس کی تفصیل سے واقف کروانے میں کوئی قباحت نہیںہونی چاہئے ۔اب تحقیقاتی پیانل کی تشکیل کے بعد یہ امید کی جاسکتی ہے کہ پیگاسیس معاملے میں ساری تفصیل سامنے آئے گی اور یہ پتہ چلایا جاسکے کہ حکومت نے کس کس کی جاسوسی کی ہے اور کیوں کی ہے ۔ جاسوسی کی وجوہات وغیرہ کو حکومت ہی کو عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا ۔
