ممتازشہریو ں او ردانشواروں نے چیف منسٹر کرناٹک بی ایس بومائی کوریاست میں بڑھتے فرقہ وارانہ سیاست اور نفرت کے واقعات پر قابو پانے کے استفسار کے ساتھ مکتوب تحریر کیاہے۔
ایک مکتوب میں مذکورہ دستخط کندگان نے ذکر کیاکہ مسلم لڑکی طالبہ اور ایک مسلم دوکاندار پر امتناع ریاست کے خراب صورتحال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اس مکتوب میں تبصرہ کیاکہ ریاست میں توہین آمیزصورتحال ہے۔
مذکورہ مکتوب کا موادت
مکتوب میں کہاگیا ہے کہ ”اس سرزمین میں جان بوجھ کر مذہبی منافرت کو ہوا دینا‘ فسطائیت کے باغ کو اگانے کا بے شرمی کا کام کیاجارہا ہے۔ فسطائیت اور فرقہ پرستی کے ذریعہ مسلم کمیونٹی کی غریب لڑکیوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طورپر اسکاف کے استعمال کو روکنے کے لئے استعمال کیاجارہا ہے۔
پچھلے دوسالوں سے کوئی اسکول نہیں تھا۔ دوسال قبل جن بچوں کے پاس اسکول یونیفارم تھا وہ ان کے لئے اب استعمال کے قابل نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ کم ازکم امتحانات کے وقت میں اسکول یونیفارم کا لزوم کیاضروری ہے‘ جو درحقیقت ایسا نہیں ہونا چاہئے“۔
اس خط میں مزیددلیل دی گئی کہ بھگود گیتاکو متن میں شامل کرنے کی اچانک تجویزمنظرعام پر ائی ہے”ہم محسوس کرتے ہیں کہ بچوں کو ائین پڑھانے کی ضرورت ہے‘ اورہم سمجھتے ہیں کہ ایسی مذہبی مواد کو نصاب میں شامل کرنے کی تجاویز کو روکنے کی ضرورت ہم محسوس کرتے ہیں“۔
مسلم تاجرین پر امتناع کوزیر بحث لاتے ہوئے دانشوروں نے دلیل پیش کی کہ ”تہواروں کا ریاست بھر میں انعقاد معاشی اورثقافتی زوایہ سے منعقد کئے جاتے ہیں اس کو بھی کسی ایک مسلم رشتہ داروں کو دولت مند بنانے کے زوایہ پر مت کھینچیں۔چند سال قبل مذکورہ مسلم بند تھوڈادریا مانیسٹری کی جاترا کمیٹی کے صدر نے دیاتھا۔ مخالفت سے بالاتر ہوکر میلہ فیصلہ کن طور پر منعقدہوا تھا“۔
چند ایک مطالبات کے ساتھ مکتوب کا اختتام عمل میں آیاجو مندرجہ ذیل ہیں
تعلیمی سال کے اختتام پر مسلم لڑکیوں کو غیرضروری اسکار ف کے مسلئے کے حوالے سے متاثر نہ کریں انہیں یونیفارم کے حصے کے طور پر ہیڈ اسکارف کی اجازت دیں ان کے تعلیمی ائینی حق سے انکار کئے بغیر یہ کام کریں۔
یہ بچوں کے مستقبل کا سوال ہے اور حکومت کو چاہئے کہ ضروری ہدایتیں دیں۔ ایس ایس ایل سی امتحانات کے موقع پر مذکورہ کرناٹک سکنڈری ایجوکیشن امتحانات بورڈ نے ڈریس کوڈ نافذ کیاہے۔
وباء کے حوالے سے ایسے غیرسائنسی سرکولر سے دستبرداری اختیار کرنا چاہئے
ریاست میں تہواروں کے موقع پر منعقد کئے جانے والے میلوں کو ہم آہنگی ثقافتی سرگرمیوں کے ساتھ جاری رکھنے کی منظوری دیں اور تجارت کے ضمن میں ماضی میں ہونے والے واقعات کو ختم کریں۔ جو لوگ اس کی تعمیل نہیں کریں گے ان کے لئے سزا کو تعین کریں۔
ضروری قانونی اقدامات لئے جانے چاہئے۔ان لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے جومذہب او رفسطائیت کی تقیسم کررہے ہیں۔ نصاب میں بھگوت گیتا کو شامل کرنے کے فیصلے سے دستبرداری اختیار کی جائے
حکومت کو چاہئے کہ وہ سرزمین کنڈا کی ہم آہنگی کو یقینی بنانے والے اقدامات اٹھائے
ہم مانگ ہے کہ حقوق کے لئے ہمارے مطالبات کو ان کے ائینی فرض کا حصہ سمجھا جائے۔
مسلمانوں کو مندر تہواروں میں دوکانیں لگانے سے روک دیاگیا
ہندوتوا غنڈوں نے 25مارچ کے روز کنڈاگو ضلع میں مسلمان دوکانداروں کو پھلوں او رمشروبات کی دوکانیں لگانے سے روک دیا جہاں پر ریاستی سطح کا زراعی پروگرام چل رہاتھا۔
متعدد بھگوا اسکارف پہنے ہوئے بجرنگ دل غنڈوں نے شانی وار پیٹ میں مسلمانوں تاجروں کو زبردستی پروگرام کی جگہ خالی کرنے پر مجبور کیاجو مانی ہالی گاؤں کے مقام پر گھریلو گاؤں اور زراعت سے متعلق پروگرام ہوگا۔
پروفیسر ایس جی سدا رامیا‘ کے نیلا‘ ڈاکٹر رحمت تریکاری‘ ٹی سریندرا راؤ‘ دستخط کرنے والوں میں شامل تھے۔
جنوری کی شروعات سے کرناٹک میں فرقہ وارانہ واقعات پر مشتمل کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جب بھگوا دھاری پری یونیورسٹی اسٹوڈنٹس نے کالج کے احاطے میں مسلم طالبات کے ہیڈ اسکارف پہننے کے خلاف احتجاج کی شروعات کی تھی۔