ہبہ

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بکر اپنی بیوی کے نام ایک ملگی زبانی ہبہ کرکے قبضہ دیدیا۔ ایسی صورت میں شرعاً ہبہ درست ہے یا نہیں ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں زید نے اپنی بیوی کو زبانی ہبہ کرکے ملگی بیوی کے قبضہ میں بھی دیدیا تو شرعاً یہ ہبہ درست ہے لیکن ثبوت کے لئے شرعاً دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہوگی۔ الھبۃ عقد مشروع وتصح بالایجاب والقبول و القبض۔ ہدایہ کتاب الہبۃ۔ اور درمختار برحاشیہ رد المحتار کتاب الشھادۃ جلد ۴ میں ہے {ونصابھا لغیرھا} من الحقوق {سواء کان} الحق {مالا أوغیرہ} کنکاح و طلاق و وکالۃ ووصیۃ و استھلال صبی ولو للارث {رجلان او رجل وامرأتان}۔ فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
مولانا سید شاہ احمداللہ باجنی قادری
حضرت سید شاہ اسد اللہ باجنی قادری چشتی شطاریؒ
حضرت سید شاہ اسد اللہ باجنی قادری چشتی شطاری ؒ برہا ن پور میں پیداہوئے۔ بچپن ہی میں والدہ محترمہ کاسایہ ہٹ گیا۔ آپ کاتعلق حضرت سیدناشیخ بہااء الدین باجن چشتیؒ سے ہے جن کامزار شریف برہان پور میں ہے۔آپ کے والد بزرگوار نہایت متقی وعبادت گذار اور باکمال بزرگ تھے۔ ابتدائی تعلیم والد بزرگوار وپیر حضرت سیدناشیخ سعد اللہ ؒ نے دی اور اس وقت کے علماء سے ظاہری علوم کاتکمیلہ فرمایا۔ آپ بچپن سے ذہین اور بزرگوں کو صحبت وخدمت میں لگے رہتے ،ان کے ارشادات کو پوری توجہ سے دل نشین کرلیتے ،اپنے والد وپیر کی خدمت میں ہمیشہ رہتے عام مریدوں کی طرح خدمت کرتے ۔ نماز تہجد میں خصوصا وضو کراتے ،موسم سرمامیں بعض وقت پانی گرم کرنے کیلئے آگ نہ ملتی تو پانی کے برتن کو اپنے پیٹ پر رکھتے تاکہ جسم کی گرمی سے پانی کی سردی میں کمی ہوجائے۔ پھر حضرت والد وپیر نے آپ کو کم عمری ہی میں سلسلہ چشتیہ وشطاریہ میں بیعت لیکر کچھ دن بعد خلافت سے سرفراز فرمایا۔ دیڑھ سال بعد آپ کے والد کاوصال ہوگیا۔ آپ نے ساری زندگی کسی کے آگے دست سوال دراز نہ فرمایا۔ کم کھاتے ، کم سوتے اور حتی المقدور اللہ کے بندوں کی خدمت کیاکرتے ۔ آپ کاقدمیانہ ،رنگ گورا اور جسم سیڈول ،چہرو پر نو رتھا۔ قرآن کی تلاوت ہمیشہ کا مشغلہ تھا، ذکر وفکر میں رہتے۔ تین سال اسی طرح گذرے ایک شب خواب میں پیر ومرشد نے تشریف لاکر فرمایاکہ اب تم ارکاٹ چلے جائو۔ وہاں تمہارے لئے سلسلہ قادریہ عالیہ کی نعمت رکھی ہے۔ اسے لے لو چنانچہ حکم کی تعمیل میں آپ وہاں سے نکلے۔ تلاش کرتے ہوئے آپ وہاں پہنچے اور پیر روشن ضمیر کی خدمت میں ڈھائی سال رہے۔ آخر وہاں ایک دن حضرت نے آپ کو قریب بلایااور فرمایا۔ اسد اللہ شاہ جی اب ہماراوقت قریب ہے۔ چنانچہ وہاں سے بھی خلافت جلیلہ عطاء ہوئی پھر کچھ دن بعد حضرت کاوصال ہوگیا۔ وہاں سے پھر حکم ہواکہ دکن کی طرف جائو ، چنانچہ آپ دکن تشریف لاکر محلہ حسینی علم کی بڑی مسجد جو آج کل مسجد حضرت ابو الحسنات سید عبداللہ شاہ نقشبندی سے موسوم ہے ،قیام فرمایا۔ آپ ؓ نے پانچ کتابیں تصوف ودیگر علوم پر لکھیں جس میں ایک کانام ’’خزینہ رحمت‘‘ ہے۔ آپ بہت بے باک حق گواور سخی تھے۔ لوگ جو کچھ بھی خدمت میں لاتے تو سب کاسب تقسیم فرماتے ، آپ اکثر روزہ رکھتے۔ غذامیں چنااور مونگ پانی میں بھگو کر نوش فرماتے ،اللہ کاشکر اداکرتے ۔نماز تہجد کے بعد ذکر میں فجر تک مشغول رہتے۔ بعد فجر مراقبہ میں رہتے۔ آپ خوش اخلاق تھے، ہر مذہب کے لوگ آپ کی خدمت میں رہتے اور مفید مشوروں سے مستفید ہوتے۔ مشکوٰۃ النبوۃ کے مصنف حضرت غلام علی شاہ موسویؒ نے مختصر تحریر فرمایاہے کہ میں خود حضرت کی خدمت میں چار سال رہا۔ حضرت اس وقت کے قطب تھے۔ آپ ۷۴ سال کی عمر میں وفات پاکر اپنی قیام گاہ ہی میں مدفون ہوئے۔