قانون کا بیجا استعمال کرنے کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے ۔ دوسری میعاد کے لیے عوام کا بھاری خط ِ اعتماد حاصل کرنے والی سیاسی پارٹی کے ہر عام و خاص کارکن نے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لے لیا ہے یا قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھنے لگا ہے ۔ سرکاری سطح پر جب قانون کا بیجا یا غلط استعمال ہونے لگے تو جمہوریت پسند شہریوں کو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ اترپردیش میں اس وقت قانون کا جس اندھا دھند طریقہ سے غلط استعمال ہورہا ہے اس کی تازہ مثال ایک صحافی کی گرفتاری ہے ۔ اس صحافی پرشانت کنوجیا کو چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف سوشیل میڈیا پر ایک پیغام پوسٹ کرنے کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیا لیکن سپریم کورٹ نے صحافی کی گرفتاری کو ایک شہری کی آزادی کے حق کو چھین لینے کا پولیس کو قصور وار قرار دیتے ہوئے فوری رہائی کا حکم دیا ۔ صحافی کنوجیا کی اہلیہ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اپنے شوہر کی رہائی کے لیے درخواست داخل کی تھی اس درخواست کے ساتھ یو پی چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کی حکومت میں عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے واقعات میں سے ایک واقعہ کی ویڈیو بھی پیش کی جس میں بتایا گیا کہ ایک خاتون کو آدتیہ ناتھ کے خلاف الزامات عائد کئے جانے پر اسے ہفتہ کی صبح دہلی سے گرفتار کرایا گیا اور شام تک جیل بھیج دیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے صحافی کی گرفتاری کا سخت نوٹ لیتے ہوئے پولیس کی سرزنش کی ۔ پولیس کسی کے خلاف ایک مروج طریقہ کار کے ذریعہ کارروائی کرسکتی ہے ۔ صحافی کے خلاف وہ اس کے قصور کے مطابق کارروائی تو کرے مگر گرفتار نہیں کیا جاسکتا ۔ یو پی پولیس نے اپنی اس کارروائی کی مدافعت کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن ناکام رہی ۔ اس ملک یا بی جے پی حکمراں والی ریاستوں میں عوام کی آزادی کو سلب کرنے کا عمل شروع ہوگیا ہے تو یہ حالات ملک کو بدترین مستقبل کی طرف لے جائیں گے ۔ بی جے پی یا ہندوتوا کے قائدین کسی کے خلاف کچھ بھی بولنے اور من مانی کرنے کو اپنا حق تصور کرتے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی تبصرہ کرتا ہے تو وہ قوم دشمن کہلاتا ہے اور سوشیل میڈیا پر اظہار خیال کرنے پر اس کی آزادی سلب کرلی جاتی ہے ۔ یو پی میں آدتیہ ناتھ حکومت کے بارے میں مبینہ طور پر قابل اعتراض بیانات پوسٹ کیے جارہے ہیں اور بیانات یا پیغامات میں جو الزامات عائد کئے گئے ہیں اس پر توجہ دینے اور حقائق کا جائزہ لینے کے بجائے حکومت اگر سرکاری مشنری کا بیجا استعمال کرتے ہوئے طاقت کی زور سے عوام کو چپ کرانے کی کوشش کرے تو پھر یہ جمہوریت نہیں آمریت کہلاتی ہے اور بی جے پی قائدین اپنی پالیسی اقدامات کے ذریعہ ملک کو بدترین آمریت کی جانب لے جارہے ہیں ۔ یو پی میں صحافی کے بشمول پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ان گرفتاریوں کے خلاف سوشیل میڈیا پر شدید بحث چھڑ گئی ہے ۔ یہ واقعہ خود بی جے پی اور آدتیہ ناتھ کی بدنامی کا باعث ہے ۔ مگر اس وقت بی جے پی اور اس کا ہر رکن طاقت کے نشے میں ہے ۔ ویسے ایک جمہوریت ملک میں اظہار خیال کی آزادی کا مطلب یہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے خلاف توہین آمیز پیغام پوسٹ کرے یا کسی کو بے عزت کرے ۔ پولیس نے جن افراد کو گرفتار کیا ہے ان پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے چیف منسٹر یو پی کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ جھوٹے الزامات عائد کئے جارہے ہیں ۔ اگر پولیس کے پاس ایسے جھوٹے الزامات عائد کرنے والوں کا جواز ہے تو پھر قانون کی رو سے کارروائی کرنے کے طور طریقہ بھی ہوتے ہیں ۔ پولیس کو ان اصولوں پر عمل کرنا چاہیے ۔ کسی کو بھی گرفتار کرتے ہوئے اس کی حق آزادی کو چھین لینے کا اسے اختیار نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس بات کی جانب پولیس کی توجہ مبذول کرائی ہے ۔ لہذا ملک کے تمام ریاستوں کی پولیس کو بھی سپریم کورٹ کی یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے ۔