اسلام خواتین کے حقوق کا نگہباں

   

مردوعورت دونوں انسان ہیں ،خالق کائنات نے عظیم مصالح کی بناپران میں صنفی فرق رکھا ہے اس فرق کونہ سمجھنے کی وجہ دین بیزارمغربی تہذیب نے بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں اوراپنی فکری بے دینی کی وجہ اسلام پر اعتراضات کئے ہیں،اوروں کو گمراہ کرنے اوراس فکرکوان پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے،جبکہ اسلام سے پہلے عورت بڑی مظلوم ومقہورتھی ،اسکی حیثیت حشرات الارض سے بھی گئی گزری تھی،عورت ایک کھلونہ تھی اسکوجیسے چاہے استعمال کیا جاتا تھا ،عورت کے استعمال میں رشتوں کا احترام بھی برقرار نہیں تھا ،اسلام سے پہلے لاتعدادنکاح کئے جاتے جس سے دل بھرجاتا اسکواپنی زندگی سے نکال پھینکتے ، اسلام نے اس پر تحدیدعائدکرکے بوقت ضرورت چارتک کی تعدادسے اسکومحدودکیاہے، اسلام کی یہ تحدیدفردکے ساتھ سماج ومعاشرہ کیلئے باعث رحمت وسکینت ہے اورخودعورت کے حق میں بھی اسکا رحمت ہونا قرین عقل ہے، اس طرح اسلام نے اخلاق وتہذیبی حدوں کو پارکرکے بازاری عورتوں سے ناجائزتعلقات قائم کرنے کی راہ پر ایک مضبوط بندباندھا ہے ،لیکن اسلامی احکامات سے جن کو خداواسطے کا بیرہے وہ اسکوبھی عورت پر ظلم سمجھتے ہیں ،جبکہ تعدد ازواج عورت کیلئے اس سے کہیں زیادہ بہترہے کہ اسکا مردغیراخلاقی راستہ پر چل پڑے۔ چنانچہ نئی تہذیب نے بھی اسی پرانی جاہلی تہذیب کواپنا کر عورت کومعاشی ،سیاسی اورسماجی سرگرمیوں میں مصروف کرکے مردوں کے ساتھ آزادانہ اختلاط کا ماحول فراہم کیا ۔سیروتفریح کے ایسے آزادانہ راستے اختیارکئے جسکی وجہ وہ بے آبروہوئی اورجن فطری ذمہ داریوں کی وہ پابندتھی اس سے وہ غافل بھی ہوئی،اس غفلت کا خمیازہ نیا تہذیبی معاشرہ بھگت رہا ہے۔دنیا جانتی ہے اسلام سے پہلے عورت کو انسانی احترام حاصل نہیں تھا، اوراب نئے آزاد انہ سماج نے بھی اسکو بازاروں کی زینت اورخریدوفروخت کی اشیا ء کا اشتہاربنا کر بے آبروکردیا ہے انسانیت پر یہ بڑااحسان ہے کہ اسلام نے اسکی بے احترامی کے سارے ذرائع کا سدباب کیا۔

الغرض اسلام نے عورت کو ایسی عظمت وتوقیربخشی کہ زمین کی پستی سے اٹھاکرآسمان کی بلندیوں تک پہنچادیا،اسلام نے عورت کو وہ عظمت دی اوراسکے حقوق کاایسا اعلیٰ ،فطری ودل کو چھونے والاحیات آفریں پیغام دیاکہ کسی اورمذہب میں اسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے انسانوں کے درمیان بحیثیت انسان مساوات کو تسلیم کیا ہے لیکن مردوعورت چونکہ دوالگ صنف ہیں انکے درمیان بہت سے حقوق میں مساوات کوماننے کے ساتھ خلقی وصنفی فرق کی وجہ بہت سے امورمیں مساوات کو نہیں بلکہ عدل کوپیمانہ بنایا ہے۔مردوعورت کی صنفی استعدادکے بقدران پر ذمہ داری کا بوجھ ڈالا گیا ہے ،’’اللہ سبحانہ کسی نفس پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا‘‘(البقرہ:۲۸۶)
اسلام نے مردوعورت کے جائزتعلق کی بنیادپر خاندان کی بنیادرکھی ہے اس جائزرشتہ نکاح کو اخلاقی حدودوقیودکا پابندبنایا ہے ۔مومنانہ جذبات واحساسات اورقانون اسلامی کا عادلانہ نظام اس رشتہ کوقیام ودوام بخشتاہے،اسلامی قانون کی روسے مردوزن کا صنفی اختلاط نکاح کے بغیرجائزنہیں ،ناگزیرصورت میں طلاق وخلع کا قانون بھی انسان کے فطری حق کا عکاس ہے۔اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسانی معاشرہ جنسی انا رکی سے پاک رہے ،یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوعورت میں صنفی اعتبارسے خالق کائنات نے بڑافرق رکھا ہے اس فرق کی وجہ انکی ذمہ داریاں اورفرائض بھی جداجدارکھے گئے ہیں اسکوسمجھنا عقل وفہم کی بنیادپر بھی بہت آسان ہے جبکہ وہ تعصب کا شکارنہ ہو۔ ساری کائنات اورانسانوں کے خالق نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنا یا اورانکوایک ضابطہ اورقانون کا پابند کیاہے اوروہ ضابطہ وقانون ’’اسلامی آفاقی والہامی قانون ‘‘ہے، اسلام چونکہ آفاقی اورعالمگیردین ہے اسلئے اس نے ایسے احکامات دئیے ہیں جوانسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔مردوعورت سے متعلق کتاب وسنت کی روشنی میں جوقوانین واحکام مدون ہیں اسمیں ساری انسانیت کی راحت وسکینت اورکامیابی کا راز مضمرہے اورمعاشرہ کی پاکیزگی کی برقراری اوراسکی صلاح وفلاح کی اسمیںضمانت ہے ،یہ قانون الہامی قانون ہونے کی وجہ ناقابل تغیرہے ، اسلامی احکام وقوانین کے مصالح پرنظرنہ ہونے کی وجہ بعض غیردینی حلقوں سے بارباراعتراض ہوتا رہتاہے ،خاص طورپر خواتین کے حقوق سے متعلق کئی ایک اشکالات قائم کئے جاتے ہیں ،کہاجاتا ہے کہ ’’اسلام نے عورت کو گھرکی چہاردیواری میں محصورکردیا ہے اوروہ قیدوبندکی زندگی گزارنے پر مجبورہے ،مردکی طرح بلاروک ٹوک وہ باہر نہیں جاسکتی ضرورت کی بنیادپر گھرسے باہر نکلنا ہوتواسکو برقع اورحجاب کا پابندکردیا گیا ہے۔مسافت سفریعنی تخمینی ۹۰کیلومیٹرسے زائد کا سفرہوتومحرم کے بغیر اسکو سفرکرنے کی اجازت نہیں ‘‘ظاہرہے یہ اوراس طرح کے سارے اعتراضات اسلئے بے بنیادہیں کہ یہ صرف فکرونظرکی کوتاہی وکوتاہ فہمی کی وجہ عقلی ومنطقی ہیںاورخالق کائنا ت کی معرفت سے محرومی اوراسکے دئیے گئے احکامات کے مصالح سے جان بوجھ کر چشم پوشی کی وجہ سے ہیں۔عقل ودانش رکھنے والاہرفرداس بات کو مانتا ہے کہ جوچیزجتنی زیادہ قدروقیمت واہمیت کی ہوتی ہے اسکی اتنی ہی زیادہ حفاظت کی جاتی ہے ،مال ودولت ،زروجواہرکھلے عام نہیں رکھے جاتے انکی حفاظت کیلئے سخت آ ہنی تجوریاں یا بنک کے لاکرس وغیرہ سے استفادہ کیا جاتاہے تاکہ انکی حفاظت کویقینی بنا یا جاسکے،اللہ سبحانہ کی نظرمیں ان مادی اشیاء کی کوئی قدروقیمت نہیں جتنی انسان کی خاص طورپرعورت کی عظمت وقدر اسکے پیداکرنے والے( اللہ) کے ہاں ہے۔عفت وپاکدامنی ایک اعلی انسانی قدرہے خالق کائنات کے ہاں اسکی حفاظت انسانی وخاندانی مصالح کے پیش نظربڑی اہم ہے،قیمتی زروجواہر لٹ جائیں ،مال ودولت گم ہوجائے تویہ اتنا بڑانقصان نہیں جتنا کہ عفت وعصمت کا داؤ پر لگ جانا یا اسکی چادرکا تارتارہوجاناناقابل تلافی نقصان ہے ،اسلئے اسلام نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت دی ہے،بلاوجہ اور خاص طورپربناؤ سنگھارکرکے گھرسے باہرنکلنے کومنع کیا ہے۔(الاحزاب :۳۳) گھرسے باہر نکلنا ضروری ہوتو’’ تَبَرُّجْ ‘‘سے منع کیا گیا ہے ،یہ لفظ اتنا جامع ہے کہ اسمیں نیم برہنہ لباس زیب وتن کرکے اعضاء جسمانی کے نمائش کرتے ہوئے یا چست لباس پہن کرجسمانی ساخت کو نمایاں کرتے ہوئے یا خوشبولگاکردعوت نظارہ دیتے ہوئے گھرسے باہرنکلنا وغیرہ سب شامل ہے۔ضرورتا گھرسے باہرنکلنے کی صورت میں سادہ لباس کے استعمال اورجلباب یعنی بڑی چادروغیرہ سے پورابدن ڈھک کر نکلنے (الاحزاب:۵۹)

اورنگاہوں کونیچی رکھنے،اوراپنی زیب وزینت کو چھپائے رکھنے (النور:۳۰/۳۱) وغیرہ جیسی ہدایات اسلام نے دی ہیں۔ چونکہ عورت کا دائرہ کارگھرکی چہاردیواری ہے ،امورسیاست وجہاں بانی ،معاشی تگ ودواسکے فرائض میں نہیں ،امورخانہ داری ، بچوں کی تربیت ودیکھ رکھ اسکا اہم ترین فریضہ ہے جس سے آنے والی نسلوں کازرین مستقبل وابستہ ہے ۔اورماں کی گودمیں تربیت پائے ہوئے ایسے جیالوں کی انسانی معاشرہ کو ضرورت ہے جوکارگاہ حیات میں انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار،امورجہاں بانی کے رمزسے واقف اور بوقت ضرورت اس ذمہ داری کو نبھانے کی صلاحیت کے حامل ہوں، اجنبی مردوں سے بات کرنا نا گزیرہوتو پردہ میں رہتے ہوئے بھی نرم ونازک لہجے میں بات کرنے سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے کہ کہیں دل کا روگی (بیمار)برے تصورات کا شکارنہ ہوجائے ،ہاں البتہ باوقاراندازسے گفتگو کرنے اجازت ہے (النور:۳۲)،لب ولہجہ کا نرم ونازک ہونا ،اندازگفتگوکا لوچ بسااوقات غلط فہمیوں کا دروازہ کھول سکتاہے ،نفس امارہ کا مریض کسی نازیبا حرکت کی جسارت کا مرتکب ہوسکتاہے اسلئے اسلام نے اس روزن کوبھی بندکردیا ہے۔ عورت کی حفاظت کی غرض ہی سے اسلام نے عورت کیلئے جوزریں ہدایات دی ہیں وہ ایک طرح سے اسکی حفاظت کا مضبوط وباوقار حصارہیں جسمیں عورت اپنی پوری عظمت ومرتبت اوراسلام کے عطاکردہ بیش بہا حقوق کی تحصیل کے ساتھ محفوظ ومامون ہے،ظاہر ہے آزایٔ نسواں کے عنوان سے حفاظت کے اس حصارکی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے اسکی عظمت ووقارکومجروح کیا گیا ہے۔ اور اسلام کے ان حدودکوتوڑنے کی منظم سازش نے عورت کو بے آبروکردیا ہے ، اسلام نے اس طرح کی پاکیزہ و بیش قیمت ہدایات اسلئے دی ہیںتاکہ زندگی کی پرخطرراہوں سے گزرتے ہوئے عورت پوری طرح محفوظ و مامون اورسلامت رہے،الغرض اسلام کے ان سارے احکامات کوکوربیں عورت کی آزادی میں خلل اندازتصورکرتے ہیں ،دل بینا جن کو نصیب ہوجائے وہ محسوس کرتے ہیں اسلام کی یہ ساری ہدایات نہ صرف عورت کے حق میں بلکہ سارے سماج کیلئے رحمت ہیں اسلام گویا ایک عظیم سائبان رحمت ہے جواس سائبان رحمت میں ایمان واعمال صالحہ کے ساتھ جگہ حاصل کرلیتا ہے دنیا جہاں کی راحتیں اوراخروی نعمتیں اسکے دامن میں بھرجاتی ہے۔