شیشہ و تیشہ
انورؔ مسعودپدر تمام کند!بھینس رکھنے کا تکلف ہم سے ہوسکتا نہیںہم نے سْوکھے دودھ کا ڈبا جو ہے رکھا ہواگھر میں رکھیں غیر محرم کو ملازم کس لئےکام کرنے کے
انورؔ مسعودپدر تمام کند!بھینس رکھنے کا تکلف ہم سے ہوسکتا نہیںہم نے سْوکھے دودھ کا ڈبا جو ہے رکھا ہواگھر میں رکھیں غیر محرم کو ملازم کس لئےکام کرنے کے
اظہرؔماسک!!ماسک سے یوں تو ہم بھی ڈرتے ہیںڈرتے ڈرتے اُسے لگاتے ہیںہم گناہگار ہوگئے شایداس لئے منہ چھپائے پھرتے ہیں…………………………المیہ !!درسی کتاب بکتی ہے فُٹ پاتھ پر یہاںجوتے سجے ہوئے
سلطان قمرالدین خسروادب کے ساتھ!!میڈم کی ڈانٹ سن کے ملازم پکار اُٹھاہر چند سنگریزہ ہوں ، گوہر نہیں ہوں میںلیکن کلام کیجئے مجھ سے ادب کے ساتھنوکر ہوں ، کوئی
سید مظہر عباس رضویمُرغی نامہ …!دنیا کے کئی ممالک بشمول برصغیر میں، مرغیوں میں برڈ فلو کی بیماری پھیلنے کے سبب لاکھوں مرغیاں تلف کرنی پڑیں ، اور اس کی
انورؔ مسعودکھاد …!چارہ جوئی کہ ضرورت ہے بنی آدم کییہ بھی ایجاد کرے گی ہمیں معلوم نہ تھاگھاس کا ذائقہ سبزی میں چلا آیا ہےکھاد برباد کرے گی ہمیں معلوم
انورؔ مسعودصاحب …!اُن سا کوئی مصروف زمانے میں نہ ہوگاگھر پر کبھی ٹھیرے ہیں نہ دفتر میں رُکے ہیںدَورے سے جو لوٹے ہیں تو میٹنگ میں ہیں صاحبمیٹنگ سے جو
فرید سحرؔمعجون تبسم…!!ترے بارے میں جب سوچا بہت ہےمرا معصوم دل دھڑکا بہت ہےجسے جوڑے میں اک بنگلہ ملا ہووہ اپنی بیوی سے ڈرتا بہت ہےیقینا وہ مرا محسن ہے
یہ سال بھی !مسئلے تو پچھلے سال کے اپنی جگہ رہےسب سوچتے رہے کہ نیا سال آ گیاخوشیاں جو بانٹتا تو کوئی نئی بات تھیگزرا ہوا یہ سال بھی عمریں
شاہد ریاض شاہدؔنیا سال مبارکلو جی غربت اور مہنگائی کا وبال آ گیاگندی سیاست کا ایک جھنجال آ گیابجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ لیے دوستو!ہر سال کی طرح پھر نیا
دلاور فگاردعائے نجاتکسی شاعر نے اک محفل میں نوے شعر فرمائےردیف و قافیہ یہ تھا دعا کردے دوا کردےکہیں مقطع نہ پاکر اک سامع نے دعا مانگیالہ العالمیں اس قید
ہنس مکھ حیدرآبادیمزاحیہ غزلدو ضرب دو تو چار ہوگا ہیمجھ کو بیگم سے پیار ہوگا ہیجس جگہ ہونگے سو عدد بیماراُس جگہ اِک انار ہوگا ہیہے منسٹر کا لاڈلا بیٹاجُرم
انورؔ مسعودتسمہ پا…!اِن خدا کے بندوں نے، جانے کن زمانوں سےہر کنارِ دریا پر چوکڑی جمائی ہےخضر کا لڑکپن بھی اِن کے سامنے گزراٹول ٹیکس والوں نے کتنی عمر پائی
طالب خوندمیری اب دیکھیے جناب ! اِک بدنصیب ، اپنے پُرآشوب گاؤں سے کل شب ، صحافیوں سے یہ کہہ کر نکل گیا ’’چولھا نہیں جلا تھا کئی روز سے
انورؔ مسعود بظاہر…! آفت کو اور شر کو نہ رکھو جُدا جُدا دیکھو اِنہیں ملا کے شرافت کہا کرو ہر اِک لچر سی چیز کو کلچر کا نام دو عُریاں
شاداب بے دھڑک مدراسی ہنسنے کی مشق! دامانِ غم کو خون سے دھونا پڑا مجھے اشکوں کے موتیوں کو پرونا پڑا مجھے میری ہنسی میں سب یونہی شامل نہیں ہوئے
شوکت جمال ( ریاض ) مزاحیہ قطعہ بڑے بوڑھوں سے اکثر ہم سنا کرتے ہیں یہ بیگم میاں بیوی ہوا کرتے ہیں اک گاڑی کے دو پہیے مگر گاڑی تو
پیاز …!! ہوئی جو دال گراں اور سبزیاں مہنگی کچن میں جاکے بھلا کیا وہ دلنواز کرے معاملات محبت کا اب یہ عالم ہے میں پیار پیار کروں اور وہ
پاپولر میرٹھی فرصت !! پھر کوئی نیا ناچ نچانے کیلئے آ کچھ دیر مجھے اُلو بنانے کیلئے آ اتوار کی چھٹی ہے فرصت سے ہوں میں بھی ٹھینگا ہی سہی
انورؔ مسعود فن کار اے بندۂ مزدور نہ کر اِتنی مشقت کاندھے پہ تھکن لاد کے کیوں شام کو گھر آئے جاکر کسی دفتر میں تو صاحب کا ہُنر دیکھ
اقبال شانہ ؔ چھتری ڈر کے بارش سے کھول دی چھتری تیز آئی ہوا گئی چھتری اُڑ رہا ہوں ہوا میں تقریباً کیسے چھوڑوں نئی نئی چھتری کون ڈرتا ہے