شیشہ و تیشہ

شیشہ و تیشہ

تجمل اظہرؔ قافیہ پیمائی…!! زباں سے فاعلاتن فاعلن ہی جاری ہے ذہن میں شعر و ادب ہی کا بھوت طاری ہے فقط اک مصرعہ سے مصرعہ کو جوڑنا اظہرؔ یہ

شیشہ و تیشہ

دلاور فگار دعائے نجات کسی شاعر نے اک محفل میں نوے شعر فرمائے ردیف و قافیہ یہ تھا دعا کردے دوا کردے کہیں مقطع نہ پاکر اک سامع نے دعا

شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر محمد ذبیح اﷲ طلعت ؔ وعدہ تیرا وعدہ …! بنا ٹِری گارڈ کے ہی وہ پودے لگارہی ہے پوسٹروں پر بڑے بڑے دعوے لگارہی ہے ترقی ریاست کی اس

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود فن کار اے بندۂ مزدور نہ کر اِتنی مشقت کاندھے پہ تھکن لاد کے کیوں شام کو گھر آئے جاکر کسی دفتر میں تو صاحب کا ہُنر دیکھ

شیشہ و تیشہ

ڈر لگتا ہے …!! اپنے گھر کے در و دیوار سے ڈر لگتا ہے گھر کے باہرتیرے گلزار سے ڈر لگتا ہے خوشبوؤں لذتوںرنگوں میں خوف پنہاں ہے برگ سے

شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادقؔ کرونا …!! کرونا کی کیسی وباء یہ چلی ہے کہ لاشوں کی ہرجاء جھڑی لگ گئی ہے ادھوری تمہاری بناء ہر خوشی ہے مرے پاس سب

شیشہ و تیشہ

اقبال شانہؔ آزمانا چاہیئے ! موسموں کی شدتوں کو آزمانا چاہئے برف کھانا چاہئے، اولے چبانا چاہئے گرمیوں میں گرم پانی سے غسل فرمائیے سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہانا

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود انگلش ! ملتی نہیں نجات پھر اِس سے تمام عمر اچھی نہیں یہ چیز دہن میں دھنسی ہوئی انگلش کی چوسنی سے ضروری ہے اجتناب ’’چھٹتی نہیں ہے

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود شانہ بہ شانہ چھوڑ دینا چاہیے خلوت نشینی کا خیال وقت بدلا ہے تو ہم کو بھی بدلنا چاہیے یہ بھی کیا مَردوں کی صورت گھر میں ہی

شیشہ و تیشہ

دلاور فگار اردو ڈپارٹمنٹ! اک یونیورسٹی میں کسی سوٹ پوش سے میں نے کہا کہ آپ ہیں کیا کوئی سارجنٹ کہنے لگے جناب سے مس ٹیک ہو گئی آئم دی

شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادقؔ وباء کا مذہب …!! تعصب کیوں ذہنوں میں ایسا بسا ہے نشانے پہ ہردم مسلماں رہا ہے بھلا کوئی مذہب وباء کا بھی ہوگا کورونا بھی

شیشہ و تیشہ

علامہ اسرار جامعیؔ غازی…! دنیا یہ جانتی ہے کیا شان ہے ہماری بعد ازاں جہاد جیسے میداں سے جائیں غازی پہلے نمازیوں کی تھی فوج مسجدوں میں ماہِ صیام رخصت

شیشہ و تیشہ

پاپولر میرٹھی فرصت !! پھر کوئی نیا ناچ نچانے کیلئے آ کچھ دیر مجھے اُلو بنانے کیلئے آ اتوار کی چھٹی ہے فرصت سے ہوں میں بھی ٹھینگا ہی سہی

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود کچھ کہاں سب ! اک غبارستان برپا کر گئی ہیں موٹریں گرد کی موجیں اُٹھیں اور ایک طوفاں ہوگئیں راہرو جتنے تھے سب آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ’’خاک

شیشہ و تیشہ

انور مسعود ترکی بہ ترکی اپنی زوجہ سے کہا اِک مولوی نے نیک بخت تیری تْربت پہ لکھیں تحریر کس مفہوم کی اہلیہ بولی عبارت سب سے موزوں ہے یہی

شیشہ و تیشہ

سید اعجاز احمد اعجازؔ اے کورونا ! اے کورونا ! یہ کیا کیا تُو نے دن میں تارے دکھا دیا تُو نے بند کرکے مدارس و دفتر قید گھر میں

شیشہ و تیشہ

شبنمؔؔ کارواری میرے اپنے !!؟ تھے بے قرار میری قبر سب بنانے کو ہوئی نہ دیر جنازہ میرا اُٹھانے کو جو میرے اپنے ہیں کاندھا بدلنے آئے ہیں ‘‘ذرا سی

شیشہ و تیشہ

پاپولر میرٹھی پٹ گئے ! پکڑا پولیس نے خواب کی دنیا بکھرگئی ڈنڈا دیا دکھائی جہاں تک نظر گئی تھانے میں رہ گئی کہ تیرے گھر کے سامنے میں جھک

شیشہ و تیشہ

تجمل اظہرؔ احساسِ انا …! دھوپ ڈھلتی ہے تو سایوں کو بڑھادیتی ہے پست قامت کو بھی احساسِ انا دیتی ہے بے شعوروں کو یہاں سر پہ بٹھاکر دنیا ہوشمندوں

شیشہ و تیشہ

احمدؔ قاسمی حالاتِ حاضرہ دنیا کو اے دنیا کے نگہبان بچالے خطرے میں ہے ہر ملک کا انسان بچالے ہے موت کے ہاتھوں میں گریبان بچالے شدت سے زمانہ ہے