شیشہ و تیشہ
ہنس مکھ حیدرآبادیمزاحیہ غزلدو ضرب دو تو چار ہوگا ہیمجھ کو بیگم سے پیار ہوگا ہیجس جگہ ہونگے سو عدد بیماراُس جگہ اِک انار ہوگا ہیہے منسٹر کا لاڈلا بیٹاجُرم
ہنس مکھ حیدرآبادیمزاحیہ غزلدو ضرب دو تو چار ہوگا ہیمجھ کو بیگم سے پیار ہوگا ہیجس جگہ ہونگے سو عدد بیماراُس جگہ اِک انار ہوگا ہیہے منسٹر کا لاڈلا بیٹاجُرم
انورؔ مسعودتسمہ پا…!اِن خدا کے بندوں نے، جانے کن زمانوں سےہر کنارِ دریا پر چوکڑی جمائی ہےخضر کا لڑکپن بھی اِن کے سامنے گزراٹول ٹیکس والوں نے کتنی عمر پائی
طالب خوندمیری اب دیکھیے جناب ! اِک بدنصیب ، اپنے پُرآشوب گاؤں سے کل شب ، صحافیوں سے یہ کہہ کر نکل گیا ’’چولھا نہیں جلا تھا کئی روز سے
انورؔ مسعود بظاہر…! آفت کو اور شر کو نہ رکھو جُدا جُدا دیکھو اِنہیں ملا کے شرافت کہا کرو ہر اِک لچر سی چیز کو کلچر کا نام دو عُریاں
شاداب بے دھڑک مدراسی ہنسنے کی مشق! دامانِ غم کو خون سے دھونا پڑا مجھے اشکوں کے موتیوں کو پرونا پڑا مجھے میری ہنسی میں سب یونہی شامل نہیں ہوئے
شوکت جمال ( ریاض ) مزاحیہ قطعہ بڑے بوڑھوں سے اکثر ہم سنا کرتے ہیں یہ بیگم میاں بیوی ہوا کرتے ہیں اک گاڑی کے دو پہیے مگر گاڑی تو
پیاز …!! ہوئی جو دال گراں اور سبزیاں مہنگی کچن میں جاکے بھلا کیا وہ دلنواز کرے معاملات محبت کا اب یہ عالم ہے میں پیار پیار کروں اور وہ
پاپولر میرٹھی فرصت !! پھر کوئی نیا ناچ نچانے کیلئے آ کچھ دیر مجھے اُلو بنانے کیلئے آ اتوار کی چھٹی ہے فرصت سے ہوں میں بھی ٹھینگا ہی سہی
انورؔ مسعود فن کار اے بندۂ مزدور نہ کر اِتنی مشقت کاندھے پہ تھکن لاد کے کیوں شام کو گھر آئے جاکر کسی دفتر میں تو صاحب کا ہُنر دیکھ
اقبال شانہ ؔ چھتری ڈر کے بارش سے کھول دی چھتری تیز آئی ہوا گئی چھتری اُڑ رہا ہوں ہوا میں تقریباً کیسے چھوڑوں نئی نئی چھتری کون ڈرتا ہے
مرسلہ :حافظ محمد وحیدالدین عاصم کنبی…!! دکن کے ممتاز مزاحیہ شاعر جناب سلیمان خطیب مرحوم نے آج سے چالیس سال قبل نظم ’’کنبی‘‘ لکھا تھا ۔ دکنی زبان میں کسان
قطب الدین قطبؔ جمہوریت…!! جمہوریت میں جمہور کی چیخ و پکار سنئے مزے لوٹ رہے ہیں صاحبِ اقتدار سنئے عوام کے مسائل حل کریں گے یہ کیسے ہر بات پہ
مرزا یاور علی محورؔ حاتم وقت …!! بانٹ کر چندہ وہ تو اوروں کا خود کو حاتم خطاب دیتا ہے مال آتا ہے بے شمار مگر وہ نہ ہرگز حساب
مرزا یاور علی محورؔ بڑی غلطی…!! تھی بڑی غلطی ووٹ دینے کی جھیلتے ہیں وہ اب سزا اُس کی کچھ بھی کہہ دیتا ہے بلا سمجھے یہ تو عادت ہے
تجمل اظہرؔ قافیہ پیمائی…!! زباں سے فاعلاتن فاعلن ہی جاری ہے ذہن میں شعر و ادب ہی کا بھوت طاری ہے فقط اک مصرعہ سے مصرعہ کو جوڑنا اظہرؔ یہ
دلاور فگار دعائے نجات کسی شاعر نے اک محفل میں نوے شعر فرمائے ردیف و قافیہ یہ تھا دعا کردے دوا کردے کہیں مقطع نہ پاکر اک سامع نے دعا
ڈاکٹر محمد ذبیح اﷲ طلعت ؔ وعدہ تیرا وعدہ …! بنا ٹِری گارڈ کے ہی وہ پودے لگارہی ہے پوسٹروں پر بڑے بڑے دعوے لگارہی ہے ترقی ریاست کی اس
انورؔ مسعود فن کار اے بندۂ مزدور نہ کر اِتنی مشقت کاندھے پہ تھکن لاد کے کیوں شام کو گھر آئے جاکر کسی دفتر میں تو صاحب کا ہُنر دیکھ
ڈر لگتا ہے …!! اپنے گھر کے در و دیوار سے ڈر لگتا ہے گھر کے باہرتیرے گلزار سے ڈر لگتا ہے خوشبوؤں لذتوںرنگوں میں خوف پنہاں ہے برگ سے
ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادقؔ کرونا …!! کرونا کی کیسی وباء یہ چلی ہے کہ لاشوں کی ہرجاء جھڑی لگ گئی ہے ادھوری تمہاری بناء ہر خوشی ہے مرے پاس سب