حیدرآباد میں دن دھاڑے وحشیانہ قتل کی وارداتیں

   

عوام میں خوف و دہشت، پولیس کا وجود بے اثر، سلامتی کو یقینی بنانے میں ناکام

ایس ایم بلال
حیدرآباد ۔ 17 جنوری ۔ تلنگانہ پولیس جو ملک میں سرفہرست مانی جاتی ہے اور شہر حیدرآباد کو پولیس، اسمارٹ اور سیف سٹی میں تبدیل کرنے کی کوشاں ہے لیکن کچھ عرصہ سے آئے دن شہر میں ایسے سنگین وارداتیں پیش آرہی ہیں جس کے نتیجہ میں شہریوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ اکثر دن دہاڑے سڑکوں، گلیوں اور کوچوں میں قتل کی وارداتیں عام ہوتی نظر آرہی ہیں جبکہ پولیس عملہ مقام واردات پر موجود ہونے کے باوجود بھی بے بس دکھائی دے رہا ہے۔ حیدرآباد میں ’’لائیو مڈر‘‘ کا کلچر عام ہوتا جارہا ہے۔ کیا محکمہ پولیس کی فرینڈلی پولیسنگ اس کا نتیجہ ہے؟ 28 نومبر 2018ء کو پرانے شہر کے علاقہ نئے پل میں ایک آٹو ڈرائیور شاکر قریشی کا اس کے دوست عبدالخواجہ نے برسرعام پولیس کی موجودگی میں وحشیانہ انداز میں قتل کردیا تھا۔ کمشنر پولیس حیدرآباد انجنی کمار نے سال 2018ء کے سالانہ رپورٹ میں یہ بتایا تھا کہ شہر حیدرآباد میں قتل کی وارداتوں میں 8 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے لیکن سال 2019ء کے آغاز سے ہی آئے دن قتل کی بے شمار وارداتیں دونوں شہروں میں دیکھی جارہی ہیں۔ 30 نومبر سال 2018ء میں ایک خاتون زہرہ بیگم کو حسینی پاشاہ اور اس کے ساتھی عابد علی نے کلثوم پورہ کے علاقہ پرانا پل برج پر رقمی لین دین کے نتیجہ میں قتل کردیا ہے۔ اسی طرح دونوں شہروں میں قتل کی وارداتوں کا سلسلہ جاری رہا اور شاستری پورم علاقہ میں 28 سالہ محمد شریف اور اس کے ساتھیوں نے میرعالم ٹینک کے قریب حملہ کرکے قتل کردیا تھا۔ 25 ڈسمبر کی شب کالاپتھر خواجہ پہاڑی علاقہ میں محسن نامی نوجوان کا اس کے ساتھی عامر نے بہیمانہ طور پر قتل کردیا جبکہ بارکس پلے گراونڈ میں بھی ولی سعدی نوجوان کا فیصل اور اس کے ساتھیوں نے جیل سے ضمانت نہ دلانے کے مسئلہ پر قتل کردیا تھا۔ 31 ڈسمبر کی شب گولکنڈہ ذیشان ہوٹل کے قریب سہیل نامی نوجوان کا بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا۔ 6 جنوری کی شب عمران اللہ نے اپنی بیوی نسیم اختر کا درزی کی قینچی سے حملہ کرکے قتل کردیا تھا۔ دو دن قبل چارمینار کے علاقہ بھگوان دیوی ہاسپٹل کے قریب بھی ایک مقامی تلگودیشم لیڈر پیٹر روی کا وحشیانہ انداز میں قتل کردیا گیا تھا۔ اسی طرح ایسے دیگر کئی واقعات آئے دن منظرعام پر آرہے ہیں جس سے عوام میں احساس تحفظ کم ہوتا دیکھا جارہا ہے۔ حسینی علم کے علاقہ میں معمولی سی بات پر لائسنس یافتہ ریوالور سے فائرنگ کردی تھی۔ شہر حیدرآباد میں پولیس کی جانب سے 10 لاکھ سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کا منصوبہ ہے اور اس سلسلہ میں کئی ہزار کیمرے دونوں شہروں میں پہلے سے ہی نصب کئے جاچکے ہیں لیکن پولیس اس معاملہ میں خوش فہمی کا شکار ہے کیونکہ قتل یا دیگر سنگین وارداتوں کی بروقت روک تھام میں ناکام ہورہی ہے لیکن اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ شواہد اکھٹا کرنے میں کامیاب ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ پولیس کو عصری بنانے کیلئے حکومت کی جانب سے کئی نئی پولیس پٹرولنگ گاڑیاں دی گئی ہیں تاکہ گلی گلی ہر سڑک پر پولیس کی موجودگی کا احساس دلایا جاسکے اور پرانے شہر میں بھی کارڈن سرچ آپریشن کے ذریعہ گھر گھر تلاشی لی جارہی ہے لیکن پولیس کی ان کارروائیوں کے مثبت نتائج برآمد ہونے کے آثار نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔ قتل کا کلچر شہر میں عام ہوتا جارہا ہے اور اس سلسلہ میں پولیس عہدیداروں سے دریافت کرنے پر وہ اس کا پختہ جواب دینے میں ناکام ہے۔ محکمہ پولیس کو چاہئے کہ وہ ایسی حکمت عملی تیار کرے کہ سنگین واردات کا ارتکاب کرنے سے لوگ گریز کریں۔