درگاہ حسین شاہ ولی ؒکی 1654 ایکر اوقافی اراضی پر چیف منسٹر وعدہ سے منحرف

,

   

سپریم کورٹ میں سرکاری اراضی ثابت کرنے کی مہم ، ڈیویژن بنچ پر سماعت کا آغاز، حذیفہ احمدی نے وقف کے حق میں ثبوت پیش کئے

حیدرآباد۔/23 نومبر، ( سیاست نیوز) درگاہ حضرت حسین شاہ ولی ؒ کی 1654 ایکر وقف اراضی کو کے سی آر حکومت کے موقف میں تبدیلی کے سبب خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ تلنگانہ تحریک کے دوران اور پھر چیف منسٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کے سی آر نے درگاہ حضرت حسین شاہ ولی ؒ کی اوقافی اراضی وقف بورڈ کے حوالے کرنے اور تعمیرات کو وقف بورڈ کے کرایہ دار بنانے کا بارہا وعدہ کیا تھا۔ اسمبلی اور اس کے باہر چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر نے وقف اراضی کے سلسلہ میں بلند بانگ دعوے کئے لیکن سپریم کورٹ میں اس معاملہ کی سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے اسے سرکاری اراضی ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔ ریونیو ڈپارٹمنٹ کے اعلیٰ عہدیداروں کی ٹیم نئی دہلی میں قیام کرتے ہوئے نامور وکلاء کی خدمات حاصل کرچکی ہے اور سپریم کورٹ میں سماعت پر گہری نظر رکھی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ میں جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس وی رام سبرامنین پر مشتمل ڈیویژن بنچ پر آج مقدمہ کی سماعت کا آغاز ہوا۔ وقف بورڈ کی جانب سے سپریم کورٹ کے نامور وکیل حذیفہ احمدی نے اوقافی اراضی کے حق میں نہ صرف دلائل پیش کئے بلکہ وقف ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔ توقع ہے کہ مزید دو دن تک مقدمہ کی سماعت جاری رہے گی اور حذیفہ احمدی کے علاوہ اعجاز مقبول بحث میں حصہ لیں گے۔ درگاہ کمیٹی نے سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔ وقف بورڈ کی جانب سے 1957 کا نظام عطیات حکمنامہ اور 1358 فصلی کا منتخب پیش کیا گیا۔ یہ اراضی دراصل مشروط الخدمت ہے جس پر حکومت اپنی دعویداری پیش کررہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کے سی آر نے تلنگانہ تحریک کے دوران اپنے رکن کونسل حبیب العطاس کے ذریعہ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا تاکہ درگاہ حضرت حسین شاہ ولی ؒ کی اراضی کا تحفظ ہوسکے۔ ٹی آر ایس کی جانب سے یہ مقدمہ دائر کیا گیا تھا جو بعد میں سپریم کورٹ پہنچا۔ تلنگانہ کی تشکیل سے قبل متحدہ آندھرا پردیش کی کانگریس حکومت جب اراضی کو اوپن آکشن کے ذریعہ فروخت کررہی تھی اس کے خلاف ٹی آر ایس ہائی کورٹ سے رجوع ہوئی تھی لیکن آج جبکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے حکومت کی جانب سے موقف تبدیل کرلیا گیا ہے۔ اسمبلی میں تیقن دینے والے چیف منسٹر اس بارے میں خاموش ہیں جس کا اثر مقدمہ پر پڑ سکتا ہے۔ اگر چیف منسٹر اپنے وعدہ میں سنجیدہ ہیں تو حکومت کو سپریم کورٹ میں اپنی دعویداری واپس لینی چاہیئے۔ مقدمہ سے دستبرداری کی صورت میں ساری اراضی وقف قرار پائے گی۔ نہ صرف ریوینو ڈپارٹمنٹ بلکہ غیر مجاز قابضین نے تقریباً 22 نامور وکلاء کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ اراضی کو سرکاری ثابت کیا جاسکے۔ اوقافی اراضیات کے تحفظ کے سلسلہ میں بلند بانگ دعوے کرنے والے کے سی آر کے موقف میں تبدیلی نے مسلمانوں کو مایوس کردیا ہے۔ برسراقتدار پارٹی کے عوامی نمائندے اور قائدین اس موقف میں نہیں کہ وہ چیف منسٹر کو اُن کا وعدہ یاد دلاسکیں۔ واضح رہے کہ درگاہ کے تحت جملہ 1654 ایکر 32 گنٹہ اراضی جس میں سے متحدہ آندھرا پردیش کی حکومت نے مختلف اداروں کو 1226 ایکر 29 گنٹہ اراضی الاٹ کی جس میں سے 818 ایکر اراضی پر تعمیرات ہیں جبکہ 428 ایکر اراضی کسی تعمیر کے بغیر کھلی موجود ہے۔ جن اداروں کو یہ اراضی الاٹ کی گئی اُن میں لینکو انفراٹیک لمیٹیڈ، انڈین اسکول آف بزنس، وپرو، مائیکرو سافٹ، پولاریز، فونیکس، ایم آر پراپرٹیز، اردو یونیورسٹی، اے پی سنے ورکرس، تلنگانہ این جی اوز شامل ہیں۔ حکومت کے سپریم کورٹ میں موقف کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں میں یہ اندیشہ پیدا ہورہا ہے کہ درگاہ حسین شاہ ولیؒ کی اراضی کا تحفظ وقف بورڈ کے ذریعہ ممکن نہیں۔ حکومت کی جانب سے پوری طاقت جھونک دی گئی۔ ریوینو عہدیداروں کی مستعدی کا یہ عالم ہے کہ وقف بورڈ کے حق میں تعاون کرنے پر ایک ایم آر او کا فی الفور تبادلہ کردیا گیا۔ اگر سپریم کورٹ میں اوقافی جائیداد کے تحفظ میں وقف بورڈ کو ناکامی ہوتی ہے تو اس فیصلہ کو نظیر بناکر تلنگانہ میں دیگر اہم اوقافی جائیدادوں کو خطرہ لاحق ہوجائیگا۔ر