کرناٹک میں مسلم اوبی سی ریزرویشن ختم کرنے کی مذمت

   

حکومت کے فیصلہ کے خلاف قانونی لڑائی لڑنے جمعیت علماء ہند کا اعلان

نئی دہلی: جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے کرناٹک حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کے لیے 27 سال پرانے ریزرویشن کو ختم کرنے کی سخت مذمت کی ہے اور اسے ملک کی جامع ترقیاتی پالیسی کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس سے حکومت کا دوہرا رویہ ظاہر ہوتا ہے۔ ایک طرف ملک کے وزیر اعظم پسماندہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی بات کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان کی حکومت کرناٹک کے مسلمانوں سے ریزرویشن چھین کر دوسرے طبقات میں تقسیم کر رہی ہے۔مولانا مدنی نے دلیل دی کہ ہندوستان کے مسلمان معاشی اور تعلیمی لحاظ سے انتہائی پسماندہ اور ترقی کی سب سے نچلی سطح پر ہونے کی حقیقت مختلف سرکاری اعدادوشمار اور کمیشنوں کی رپورٹوں سے واضح ہوتی ہے۔ اس لیے معاشی پسماندگی کی بنیاد پر کوئی بھی برادری مسلمانوں سے زیادہ ریزرویشن کی مستحق نہیں ہے۔ لیکن مذہب کو بنیاد بنا کر بی جے پی ملک میں مسلمانوں کو اس طرح کے تمام فوائد سے محروم کر رہی ہے، جب کہ کرناٹک میں مذہب کی بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی تمام مسلمان اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن اس زمرے میں صرف 12 پسماندہ مسلم ذاتیں ہیں۔ان حقائق کے باوجود کرناٹک حکومت کا مسلمانوں کے لیے ریزرویشن ختم کرنے اور ووکلنگا اور لنگایت برادریوں کے لیے ریزرویشن بڑھانے کا اقدام انتخابی موقع پرستی اور کھلم کھلا خوشامدی پالیسی کی ایک مثال ہے جس کا مقصد دونوں برادریوں کے درمیان تفرقہ اور دوری پیدا کرنا ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیت علماء ہند ایک ایسی تنظیم ہے جو ملک کی جامع ترقی اور تمام طبقات کو انصاف فراہم کرنے کی آواز اٹھاتی ہے۔ وہ ایسی ناانصافی کو ہرگز پسند نہیں کر سکتی۔ اس لیے اس حوالے سے عدالتی عمل کے لیے جلد اقدامات کیے جائیں گے۔