آندھراپردیش الیکشن ، اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو فیصلہ کن موقف حاصل

   

جگن اور چندرا بابو نائیڈو کی مسلمانوں پر توجہ، افطار دعوتوں کا اہتمام ، ٹریک ریکارڈ کی بنیاد پر اقلیتوں کا تلگو دیشم کی طرف جھکاؤ
حیدرآباد ۔ یکم اپریل (سیاست نیوز) آندھراپردیش میں لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلی کی انتخابی مہم عروج پر ہے۔ اقلیتوں اور کمزور طبقات کی تائید پر سیاسی پارٹیوں کی کامیابی کا انحصار ہے ، جس کے نتیجہ میں برسر اقتدار وائی ایس آر کانگریس پارٹی اور مین اپوزیشن تلگو دیشم نے مذکورہ طبقات کی تائید حاصل کرنے کیلئے اپنی تمام تر مساعی تیز کردی ہے۔ آندھراپردیش میں اقلیتوں کی آبادی 9.5 فیصد بتائی جاتی ہے جبکہ پسماندہ طبقات کی آبادی کو یکجا کیا جائے تو مجموعی طور پر 30 تا 35 فیصد رائے دہندے فیصلہ کن موقف میں رہیں گے۔ چیف منسٹر وائی ایس جگن موہن ریڈی اور تلگو دیشم سربراہ این چندرا بابو نائیڈو رمضان المبارک کے پیش نظر زیادہ تر مسلمانوں کے پروگراموں میں شرکت کر رہے ہیں۔ مقامی قائدین کی جانب سے افطار دعوتوں کا اہتمام کیا جارہا ہے تاکہ مسلمانوں کی تائید حاصل ہو۔ دونوں پارٹیاں اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کی بھلائی کیلئے کئے گئے اقدامات کا حوالہ دے رہے ہیں۔ آندھراپردیش میں مسلم رائے دہندوں کے رجحان کے بارے میں سروے کا اہتمام کیا گیا جس میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے مقابلہ تلگو دیشم مسلمانوں کی اولین ترجیح دیکھی گئی ہے۔ اگرچہ تلگو دیشم میں ریاست کے مفادات کے نام پر بی جے پی کے ساتھ مفاہمت کی لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں پارلیمنٹ میں مودی حکومت کے تمام متنازعہ قوانین کو وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی تائید کے نتیجہ میں مسلمانوں کا عام تاثر یہ ہے کہ ٹریک ریکارڈ کے اعتبار سے جگن موہن ریڈی سے زیادہ چندرا بابو نائیڈو مسلمانوں کے ہمدرد ثابت ہوئے ہیں۔ سابق میں بھی تلگو دیشم نے بی جے پی سے مفاہمت کی تھی لیکن پارٹی کی سیکولر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں متنازعہ قوانین کو وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی تائید کا بار بار حوالہ دیتے ہوئے صدر تلگو دیشم چندرا بابو نائیڈو مسلم رائے دہندوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی پارٹی مسلم مفادات کے تحفظ میں زیادہ سنجیدہ ہے۔ دونوں پارٹیوں نے امیدواروںکی فہرست جاری کردی ہے اور رمضان المبارک کے باوجود آندھراپردیش کے مسلمان انتخابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو نے پرکاشم ضلع کے باپٹلہ اور مارکاپورم میں مسلمانوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ آندھراپردیش میں 9 سال اور علحدہ آندھراپردیش میں 5 برسوں کے دوران اقلیتوں کی بھلائی کے اقدامات کو یاد دلایا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ عملی سیاست میں 45 سال کا تجربہ رکھتے ہیں اور ان کی طویل سیاسی زندگی میں اقلیتوں کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا گیا۔انہوں نے جگن موہن ریڈی کی تنقیدوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ پانچ سال تک پارلیمنٹ میں مودی حکومت کے تمام قوانین کی تائید کرنے والی پارٹی کو ان پر تنقید کا کوئی حق نہیں ہے۔ سابق میں این ڈی اے کا حصہ رہنے کے باوجود تلگو دیشم حکومت نے کسی بھی مسلمان کے ساتھ ناانصافی نہیں کی تھی۔ تلگو دیشم پارٹی سیکولرازم کے اٹوٹ نظریہ پر برقرار ہے ۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مرکز میں بی جے پی کے دوبارہ اقتدار کے امکانات کو دیکھتے ہوئے این ڈی اے میں شمولیت اختیار کی تاکہ آندھراپردیش کی ترقی میں مرکز کا تعاون حاصل ہو۔ چندرا بابو نائیڈو نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ ، اردو یونیورسٹی کا قیام ، غریب لڑکیوں کی شادی کیلئے دلہن اسکیم ، غریب مسلمانوں کی مدد کیلئے دکان مکان اسکیم ، مسلم علاقوں میں شادی خانوںکی تعمیر اور رمضان گفٹ کی تقسیم جیسے اقدامات کا حوالہ دیا اور کہا کہ اگر مسلمان تلگو دیشم کی تائید کریں گے تو ان کی حکومت تعلیمی اور معاشی ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کرے گی۔ چیف منسٹر وائی ایس جگن موہن ریڈی انتخابی مہم میں این ڈی اے سے مفاہمت کے فیصلہ پر چندرا بابو نائیڈو کو نشانہ بنارہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ این ڈی اے میں شمولیت کے بارے میں جگن اور چندرا بابو نائیڈو دونوں نے ایک ساتھ کوشش کی لیکن بی جے پی نے تلگو دیشم کو محض اس لئے قبول کیا کیونکہ تمام سروے رپورٹس میں تلگو دیشم کی کامیابی کی پیش قیاسی کی جارہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر چندرا بابو نائیڈو کو این ڈی اے میں شامل نہیں کیا جاتا تو یقینی طور پر جگن موہن ریڈی این ڈی اے میں شامل ہوتے۔ سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والے چندرا بابو نائیڈو اور جگن موہن ریڈی کے درمیان مسلمانوں کا انتخاب کون ہوں گے ، اس کا اندازہ مہم کے آخری مراحل میں ہوگا۔ 1