اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغان خواتین کے اقوام متحدہ میں کام پر پابندی کے اعلان کی مذمت کی

,

   

قرارداد میں افغانستان میں خواتین‘ لڑکیوں کی مکمل‘ مساوی‘بامعنی‘ اور محفوظ شرکت کا بھی مطالبہ کیاگیاہے۔
اقوام متحدہ۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں افغان خواتین کے اقوام متحدہ کے لئے کام کرنے پر طالبان کی پابندی کے فیصلے کی سخت مذمت کی گئی ہے‘ اپنے انسانی حقوق کے عمل سے خواتین اور لڑکیوں کو محددو کرنے اور اس پر عمل کرنے کی پالیسی کو”تیزی کے ساتھ تبدیل“ کرنے کی پالیسی لانے کا حکمران طبقے کو ذمہ دار قراردیا ہے۔

فی الحال روسی صدرات میں کام کررہے 15قومی جونسل نے متفقہ طور پر ایک قرارداد جمعرات کے روزمنظور کی جس میں ”طالبان نے افغان خواتین کے افغانستان میں اقوام متحدہ کے لئے کام کرنے پر عائد پابندی کی سخت مذمت کی ہے‘ جس کو انسانی اصولوں اور انسانی حقوق کو نظر انداز کیاگیاہے“۔قرارداد میں افغانستان میں خواتین‘ لڑکیوں کی مکمل‘ مساوی‘بامعنی‘ اور محفوظ شرکت کا بھی مطالبہ کیاگیاہے۔

اس میں طالبان سے یہ بھی مطالبہ کیاگیا ہے کہ وہ ”ان پالیسیوں اور طریقوں کو تیزی سے تبدیل کریں جو خواتین او ر لڑکیوں کو ان کے انسانی حقوق اوربنیادی آزادیوں بشمول ان کی تعلیم تک رسائی‘ملازمت‘ نقل وحرکت کی آزادی‘اور خواتین کی مکمل‘ مساوی اور بامقصد آزادیوں اور عوامی زندگی میں شرکت کو محدود کرتی ہیں“۔

اس میں تمام ممالک اورتنظیمو ں سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق‘ان پالیسیوں اور طریقوں کی فوری تبدیلی کو فروغ دینے کے لئے اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں۔

اقوام متحدہ میں متحدہ عرب امارات کی مستقل مندوب لانا نصیبہ نے جاپان اور اس کے ملک کی جانب سے افغانستان کی فائل میں شریک پین ہولڈر کی حیثیت سے ایک بیان دیتے ہوئے کہاکہ طالبان کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کی تاریخ مثال نہیں ملتی اور انہوں نے افغانستان میں اقوام متحدہ کی موجودگی کوخطرے میں ڈال دیاہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کا ایک اندازے کے تقریباً3900کا عملہ ہے‘ جس میں 3300کے قریب قومی اور 600عالمی عملے کاانداز ہ ہے۔ان میں سے 400کے قریب قومی عورتیں اور 200عالمی خواتین شامل ہیں۔ اقوام متحدہ نے تمام مرد او رخواتین قومی عملے کوہدایت دی ہے کہ وہ اگلی نوٹس تک رپورٹ نہ کریں۔