احتجاجیوں نے ایک میمورنڈم حوالے کرتے ہوئے الزام لگایاکہ ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف مخالف ملک واقعات باقاعدگی کے ساتھ ہورہے ہیں
حیدرآباد۔اندور میں ایک مسلم چوڑی والے کی 14لوگوں کے ہاتھو ں پیٹائی او ران میں سے تین کی گرفتاری کے بعد سینکڑوں لوگ اندور میں ریگل چوراہے پر ہندوجاگرن منچ کے بیانر تلے اکٹھا ہوئے اور مبینہ خاطیو ں پر پولیس کی جانب سے کی جانے والی کاروائی کے خلاف نعرے لگائے۔
مظاہرین نے مخالف مسلم نعرے بازی کی اور ”غداروں کو گولی مارو“ کی بات کہی ہے۔ میڈیارپورٹس کے بموجب منگل کے روز نکالی گئے جلوس میں احتجاجیوں نے بھگوا پرچم لہراتے ہوئے ”بھات ماتا کی جئے‘ ہندوستان میں رہنا ہوگاتو جئے شری رام کہنا ہوگا“ اور اس طرح دیگر نعرے لگائے ہیں۔
احتجاجیوں نے ایک میمورنڈم حوالے کرتے ہوئے الزام لگایاکہ ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف مخالف ملک واقعات باقاعدگی کے ساتھ ہورہے ہیں
واقعہ پر ردعمل پیش کرتے ہوئے سابق فینانس منسٹر پی چدمبرم نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ”غازی آباد‘ کانپور‘ اور اب اندور۔ یہ کون لوگ ہیں جنھیں اس بات کا اختیارمل گیا ہے کہ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرلیں؟چدمبرم نے مدھیہ پردیش کے ہوم منسٹر کو بھی ہجوم کی حق بجانب قراردینے کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایاہے۔
انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا کہ ”اگر ریاست کے ہوم منسٹر ہجومی تشدد کوحق بجانب قراردیتے ہیں تو کیوں وہ ہوم منسٹر کے عہدے پربرقرار رہیں؟؟۔
واقعہ انجام پانے کے بعد ریاست کے ہوم منسٹر نرتم مشرا نے ایک متنازعہ بیان دیتے ہوکہاتھا کہ چوڑی والے کو اسلئے پیٹا گیاکہ اس نے اپنی غلط نام استعمال کیا او راپنی شناخت کو چھپایا اور اس کے پاس دو الگ الگ ادھار کارڈس ہیں۔
انہو ں نے یہ بھی کہ اس مسلئے کوئی فرقہ وارانہ رنگ دینے کا جواز ہی نہیں ہے۔
اس ایک ماہ میں جب مسلمانوں کے ساتھ ہراسانی او رتشدد کے تین بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ مظفر نگر میں کرانتی سینا نے مسلمانوں کو کام پر رکھنے سے روکنے کے لئے مارکٹ میں اعلان کروایا۔
کانپور میں ایک مسلم کو اس کی نو سالہ بیٹی کے ساتھ لوجہاد کے تناظر میں پیٹا گیااورہریانہ میں ایک امام کو محض’وندے ماترم‘‘ کانعرہ لگانے سے انکار کرنے پر گاؤں سے نکال دیاگیاہے۔