انصاف کا امتحان

,

   

جموں او رکشمیر پر‘ اب عدالتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شواہد کی باڈی کو پیش کرے تاکہ اس کی نیک نیتی کی تصدیق ہوسکے۔

حیدرآباد۔ ریاست جموں اور کشمیر میں ارٹیکل370کی برخواستگی کے پیش نظر کمیونکیشن اور ذاتی آزادی پر کارضرب ہے‘ 252تحریری پٹیشن اس کے بعد سے جموں او رکشمیر کی عدالتوں میں حبس بیجا کی دائر کی گئی ہیں۔

ستمبر3کے روزایک پٹیشن دائیر کی گئی تھی‘ اوسطً ہر گھنٹہ‘جس میں شہریوں کی تحویل کے عمل کو چیالنج کیاجارہا ہے۔

درخواستوں میں سے 147کی تجویز ہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے) کے تحت تحویل میں لیاگیا ہے جس کو انتظامیہ نے برے عقیدے سے تحویل میں لیاہے۔

سولہا ریاستیں نے یہاں تک تحویل کی وجوہات کا ذکر نہیں کیاگیاہے اور ان گرفتاریوں کو حق بجانب قراردیاگیاہے۔لیکن عدلیہ انتظامیہ اور سیاسی تقسیم سے بھی خراب نظر آرہی ہے۔

حبس بیجا کی درخواستیں موجود ہیں کیونکہ اس سے ایسا محسوس کیاجاتا ہے کہ سیاسی اور ایکزیکٹیو پاؤر بے قابو انداز میں چلا ہے۔

عوام کی دفاع میں اس پرلگام لگانا عدلیہ کے لئے ایک ہتھیار ہے۔ماضی میں ہندوستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو بہتر بنانے کے لئے‘عدالتی سرگرمی میں بنیاد حقوق سے متعلق تحریری پٹیشن کو عدالتی ردعمل کو تیز کرنے کی شروعات کی تھی۔

مذکورہ حبس بیجا پر تحریری پٹیشن ان حقوق پر شدید حملہ ہوگا جو دفاعی کی خطوط کے خلاف ہے‘ جس میں ملزمین کی عاجلانہ پیشی ہوتی ہے‘ بجائے اس کے انہیں بناء الزامات کے پکڑے رکھا ہے کیونکہ ان پر پی ایس اے نافذ کیاگیاہے۔

مگر جموں اور کشمیر ہائی کورٹ میں قانون کے عمل کے مغائر سختی دیکھنے کو ملتی ہے۔گیارہ معاملات جس کے احکامات جاری ہوگئے ہیں اور اس کی تفصیلات ان لائن رکھ دی گئی ہے‘ مثال کے طور پر 23اگست کو سنوائی مقرر تھی مگر تاخیرہوگئی اور9اکٹوبر کے روز سنوائی ہوگی۔

ایک او رمعاملہ میں عدالت نے مذکورہ حکومت کو نوٹس جاری کی ہے‘ اس میں ردعمل کے لئے چار ہفتوں کی مہلت دی گئی ہے۔

مقررہ وقت توقع کے مطابق کرایہ دار اور مکان دار کے درمیان جھگڑے کے معاملات میں دیاجاتا ہے‘ اس طرح کا وقت امکانی طور پر بغیر کسی وجہہ کے انسانی حقوق کی پامالی کے معاملات میں نہیں دیاجاتا ہے