ماتھرا۔ اترپردیش کے وزیر لکشمی نارائن چودھری نے استفسار کیاکہ کرشنا مندر ماتھرا میں تعمیر نہیں کیاگیا تو کیا اس کی تعمیر لاہور میں ہوگی۔ مذکورہ مندر کا مقام جس پر متعلقہ مقدمات چل رہے ہیں ارونگ زیب کے دوران کی ماتھرا کی ایک مسجد میں ہے اور اس کا کچھ حصہ ایک قدیم مندر سے جڑا ہوا ہے۔
مذکورہ منسٹر نے کہاکہ کرشنا مندر مکمل ہوجائے گی اگر اس کی سارے کانس قلعہ کے باقیات پر تعمیر کردیاجاتا ہے‘ جس میں شاہی عیدگاہ مسجد کا علاقے بھی شامل ہے۔ چودھری نے رپورٹرس کو بتایا کہ”مندر کارقبہ کانس قلعہ کی خستہ حال دیواروں تک پھیلا ہونا چاہئے“۔
انہوں نے استفسار کیاکہ ”اگر کرشنا مندر ماتھرا میں تعمیر نہیں کیاگیاتو کیااس کی تعمیر لاہور میں کی جانی چاہئے“۔ ایک ایسے وقت میں ان کے یہ ریمارکس سامنے ائے ہیں جب اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کو کرشنا مندر سے متصل عید گاہ میں 6ڈسمبر کے روز بھگوان کرشنا کی مورتی کی تنصیب او ر’جل ابھیشیک‘ کی اجازت دینے سے انکار کردیاگیاتھا۔
ضلع انتظامیہ نے28نومبر کے روز احتیاطی تدابیر کے لئے دفعہ 144سی آر پی سی نافذ کردیاتھا۔ درایں اثناء ایک اور یوپی کے منسٹر انند سوارپ شکلا نے کہاکہ مسلمان کمیونٹی کو”سفید بھون“ جہاں پر شری کرشناکے پیدائش کی جگہ ہے ہندوؤں کے حوالے کردینا چاہئے۔ وہ باضابطہ دومقامات پر مسلم مذہبی عمارتوں کا حوالہ دے رہے تھے۔
مرکزی مملکتی وزیربرائے پارلیمانی امور شکلا نے رپورٹرس کو یہ بتایا کہ”ایک وقت ائے گا ماتھرا میں سفید ڈھانچہ جس نے ہر ہندو کے ٹھیس پہنچائی ہے عدالت کی مدد سے ہٹادیاجائے گا۔
ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے کہاتھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس بات کو تسلیم کریں کہ رام اورکرشنا ان کے اجداد ہیں اور بابر‘ اکبر اور ارونگ زیب حملہ آور ہیں۔ خود کو ایسی کسی عمارت سے منسوب نہ کریں جس کی تعمیراِن لوگوں نے کی ہے“۔