ہفتہ کی صبح این آر سی فہرست کی اجرائی عمل میں ائی‘ جس میں آسام سے 1.9ملین لوگوں کے نام خارج کردئے گئے۔
گوہاٹی۔محمد ثناء اللہ ریٹائرڈ انڈین آرمی جونیر کمیشنٹ افیسر (جے ایس او) محمدثناء اللہ جسکا نام این آر سی کی قطعی فہرست میں شامل نہیں کیاگیا
کیونکہ انہو ں نے غیرملکی ٹربیونل (ایف ٹی) احکامات کے خلاف گوہاٹی ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست زیرالتوا ہے‘ نے کہاکہ اگلا قدم اٹھانے سے قبل ہائی کورٹ کی جانب سے ان کی درخواست کو تسلیم کرنے کا وہ انتظار کررہے ہیں۔
انہو ں نے مزیدکہاکہ انہیں امید تھی کہ امکانی مذکورہ این آرسی میں ان کے نام کی شمولیت کے لئے”آخری لمحات میں تبدیلی“ کی انہیں امیدتھی۔
ثناء اللہ نے کہاکہ ”چھایاگاؤں کے این آر سی سیوا کیندر سے پچھلے ہفتہ کال وصول ہوا تھا جس میں ایف ٹی کی رائے جس میں مجھے غیرملکی قراردیاگیا ہے کہ کاپی فراہم کرنے کا استفسار کیا اور ساتھ میں میری ضمانت کے احکامات بھی مانگے جس کے ذریعہ میں تحویلی کیمپ سے رہا ہوا تھا۔
اس کی وجہہ سے مجھے امید پیدا ہوگئی تھی کہ آخری لمحہ میں کچھ تبدیلی ہوسکتی ہے اور میرا نام این آر سی کی قطعی فہرست میں شامل کرلیاجائے گا۔
مگر ایسا نہیں ہوا۔ میرے نام کے ساتھ میری بیٹیاں شہناز اختر‘حلیمہ اختر اور میرے بیٹے سعید اختر کے نام بھی قطعی فہرست سے خارج ہیں۔دیگر کاروائی سے قبل ہائی کورٹ سے میری درخواست پر کاروائی کا میں انتظارکررہاہوں“۔
ثناء اللہ جس کو غیر ملکی ٹربیونل نے ”غیرملکی“ قراردیا اور تحویلی کیمپ میں بھیج دیاتھا کو بچوں سمیت قطعی فہرست میں شامل ہونے کا کوئی موقع نہیں ہے کیونکہ این آر سی کے دفعات میں ایف ٹی کی جانب سے غیرملکی قراردئے گئے لوگوں کے نام کو شامل نہیں کیاجاسکتا ہے۔
ہفتہ کی صبح این آر سی فہرست کی اجرائی عمل میں ائی‘ جس میں آسام سے 1.9ملین لوگوں کے نام خارج کردئے گئے۔ان لوگوں کو اب غیرملکی ٹربیونل میں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے درخواست پیش کرنی ہوگی۔
محمد ثناء اللہ جنھوں جنھیں صدارتی میڈیل سے نوازا گیاہے کو غیر ملکی کام روپ کی غیرملکی ٹربیونل نے قراردیاتھا‘ جس کے پیش نظر 2008میں مشکوک ووٹر کے زمرے کی فہرست میں ان کا نام شامل کئے جانے کے بعد ایک کیس رجسٹرارڈ کیاگیا۔
مئی کے مہینے میں انہیں تحویلی کیمپ میں قید کردیاگیااو رگوہاٹی ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد ان کی رہائی عمل میں ائی تھی۔
تاہم مذکورہ ہائی کورٹ نے سابق کے احکامات کو وجو ایف ٹی کی جانب سے جاری کئے گئے تھے ختم نہیں کیا اور کہاکہ پٹیشن کی سنوائی کو وہ جار ی رکھے گی