بہار میں این ڈی اے کا انتشار

   

کورونا وائرس کی وباء کے دوران انتخابات کا سامنا کرنے والی ریاست بہار میں این ڈی اے کیلئے حالات سازگار دکھائی نہیں دیتے ۔ این ڈی اے میں عملا پھوٹ ہوگئی ہے تاہم اسے پھوٹ کا نام دینے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ این ڈی اے میں شامل لوک جن شکتی پارٹی نے چیف منسٹر نتیش کمار کی قیادت میں انتخابات لڑنے سے انکار کردیا ہے تاہم بی جے پی کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنے کا اشارہ دیا ہے ۔ ایک طرح سے لوک جن شکتی پارٹی بہار میں ان حلقوں سے بھی مقابلہ کا ارادہ کر رہی ہے جہاں سے چیف منسٹر نتیش کمار کی قیادت والی جنتادل یو کے امیدوار میدان میں ہونگے ۔ این ڈی اے کی حلیف جماعتوں جے ڈی یو ‘ بی جے پی اور لوک جن شکتی پارٹی کے مابین نشستوں کی تقسیم پر اختلافات پیدا ہوگئے تھے جنہیں دور کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہی ثابت ہوئی ہیں۔ ویسے تو یہ اختلافات گذشتہ چند مہینوں پہلے ہی سے آشکار ہوگئے تھے اور ایل جے پی کے صدر چراغ پاسوان نے وقفہ وقفہ سے نتیش کمار کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا تھا ۔ انہوں نے ریاست میں این ڈی اے کی قیادت میں تبدیلی کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے بی جے پی کی تائید کا اعلان کیا تھا ۔ کورونا وائرس کی وباء کے دوران مائیگرنٹ ورکرس کے مسئلہ پر انہوں نے نتیش کمار حکومت کے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس مسئلہ میں حکومت مزید بہت کچھ کرسکتی تھی ۔ اب جبکہ انتخابات کا اور شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے ایسے میں حکومت میں شامل جماعتوں میں اتفاق رائے کا نہ ہونا این ڈی اے کیلئے اچھی علامت نہیں کہا جاسکتا ۔ دوسری طرف اپوزیشن آر جے ڈی اور کانگریس و کمیونسٹ جماعتوں میں اتحاد ہوچکا ہے اور یہاں صورتحال تقریبا بدلی ہوئی نظر آتی ہے ۔ عموما انتخابات سے قبل برسر اقتدار اتحاد میں جلد اتحاد ہوجاتا ہے اورا پوزیشن میں انتشار کی کیفیت ہوتی ہے لیکن اس بار بہار میں صورتحال بدلتی ہوئی نظر آ رہی ہے ۔ این ڈی اے میں اختلاف رائے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس اتحاد کیلئے انتخابات میں عوام کا سامنا کرنا اور ان کے سوالات کے جواب دینا زیادہ آسان نہیں رہ جائیگا ۔

بی جے پی کے صدر جے پی نڈا اور سابق صدر و وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے اختلافات کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن چراغ پاسوان نتیش کمار کی قیادت کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اپنی پارٹی کیلئے کم تعداد میں نشستیں قبول کرنے سے اتفاق کیا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے اپوزیشن کانگریس اور آر جے ڈی اتحاد فائدہ اٹھاسکتا ہے بشرطیکہ اس کو ایک منظم انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا جائے اور سیاسی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے برسر اقتدار اتحاد کے اختلافات کے مطابق اپنی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے عوام کے سامنے ایک موثر اور مستحکم متبادل کے طور پر خود کو پیش کرپائے ۔ نتیش کمار ریاست میں اب تک بحیثیت چیف منسٹر تین معیادیں پوری کرچکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ بی جے پی اور ایل جے پی کے تعاون سے انہیں چوتھی معیاد بھی حاصل ہوجائے تاہم ایل جے پی اس کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئی ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن اتحاد نے لالو پرساد یادو کے فرزند تیجسوی یادو کو اپنے چیف منسٹر امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے ۔ تیجسوی یادو ریاست کے ڈپٹی چیف منسٹر رہ چکے ہیں تاہم وہ ابھی نوجوان ہیں اور ان میں تجربہ کی کمی ہے ۔ تاہم تجربہ کی اس کمی کو جذبہ کی شدت کے ساتھ پورا کیا جاسکتا ہے ۔ عوام کے سامنے برسر اقتدار کے ایک موثر متبادل کے طور پر اپوزیشن کے اتحاد کو پیش کیا جاسکتا ہے اور عوام کے مسائل پر ایک جامع منصوبہ پیش کرتے ہوئے ان کی تائید حاصل کی جاسکتی ہے ۔

چیف منسٹر نتیش کمار کے سامنے ان کے بموجب ان کی کامیابیوں کا ایک ریکارڈ ہے جسے وہ عوام کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن اپوزیشن کیلئے بھی موقع ہے کہ جب حکومت کی حلیف جماعت ہی چیف منسٹر کی کارکردگی سے خوش نہ ہو تو اس پر عوام کی رائے کو بھی ہموار کرنا اپوزیشن اتحاد کی ذمہ داری ہوگی ۔ موجودہ حالات میں ایک جامع اور مبسوط حکمت عملی تیار کرتے ہوئے انتخابی مہم میں ایک نئے جوش و جذبہ اور عزم و حوصلے کے ساتھ حکومت کی ناکامیوں اور اپوزیشن کے نئے منصوبوں اور ترقیاتی پروگرامس کو پیش کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ یہ کام بہار کی متحدہ اپوزیشن کیلئے اگرچیکہ مشکل ضرور ہوسکتا ہے تاہم اسے نا ممکن ہرگز بھی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ جدوجہد سے اسے ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔