زرعی بلوں کو صدر جمہوریہ کی منظوری

   

زرعی بلوں کو صدر جمہوریہ کی منظوری
پارلیمنٹ میں گذشتہ دنوں منظور کئے گئے تینوں زرعی بلوں کو صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے منظوری دیدی ہے ۔ اب یہ قانون نافذ ہوجائیگا ۔ حالانکہ ان بلوں کے تعلق سے ملک بھر میں احتجاج ہو رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ان بلوں اور قانون سازی کے ذریعہ نریندرمودی کی حکومت نے کسانوں کو مزید مجبور اور بے بس کرنے کی سمت پیش قدمی کی ہے لیکن مودی حکومت ان بلوں پر بھی سخت گیر موقف اختیار کئے ہوئے ہے اور اس معاملے میں بھی حکومت نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ کسی کی مخالفت یا پھر کسی کے اعتراضات کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہے اور صرف اپنے انداز میں ہی کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ ان بلوں کے ذریعہ مودی حکومت دوسرے تمام اہمیت کے حامل شعبہ جات کی طرح زرعی شعبہ میں بھی کارپوریٹ سیکٹر کی اجارہ داری کو یقینی بنانے کی سمت پہل کر رہی ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ در اصل زراعت سے پاک معاشی نظام کے قیام کی سمت پیشرفت ہے ۔ اس سلسلہ میں دنیا کے دوسرے ممالک میں پہلے ہی سے اقدامات کا آغاز ہوچکا ہے اور مودی حکومت بھی عالمی صورتحال اور تقاضوں کے مطابق ہی کام کر رہی ہے اور اسے ملک کے کسانوں اور ان کے مفادات کے متاثر ہونے کی کوئی فکر نہیں ہے اور نہ وہ کسی کی پرواہ کرنے کیلئے تیار ہے ۔ ہندوستان میں کسانوں کی اور زرعی سرگرمیوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ ملک کی معیشت اور جملہ گھریلو پیداوار کا ایک بڑا حصہ زراعت سے وابستہ ہے ۔ ایسے وقت میں جبکہ ملک کی جملہ گھریلو پیداوار منفی 24 فیصد تک پہونچ گئی ہے زراعت وہ واحد شعبہ تھا جس نے معمولی سی یعنی 3 فیصد کی ترقی کی تھی ۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت اس شعبہ کو بھی کارپوریٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے اور یہاں بھی اپنے چند مٹھی بھر کارپوریٹ حاشیہ برداروں کی اجارہ داری کو یقینی بنانے کی سمت کام کر رہی ہے ۔ کسانوں کے مفادات اگر اس کام میں متاثر ہوتے ہیں تو مودی حکومت کسی نہ کسی طرح سے کسانوں کو گمراہ کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کرنے کی کوششوں ہی میں جٹ گئی ہے ۔
جس طریقہ سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں ان بلوں کو کسی مباحث کے بغیر اور پارلیمانی روایات سے انحراف کرتے ہوئے منظوری دی گئی ہے وہ بھی قابل اعتراض تھا لیکن مودی حکومت اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل میں کسی طرح کی روایات یا جمہوری اقدار کی پامالی سے بھی گریز نہیں کر رہی ہے ۔ ملک کے عوام اور خاص طور پر کسان طبقہ کے مفادات پر اس نے ایک بڑا سمجھوتہ کیا ہے ۔ یہ اندیشے اب بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ ملک کے کسانوںکو اب ان کی اراضیات سے بیدخل کردیا جاسکتا ہے اور انہیں زرعی سرگرمیوں کو ترک کرتے ہوئے شہری علاقوں کو نقل مقام کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح اب کسانوں کو ان کی پیداوار صرف کارپوریٹ اداروں کو فروخت کرنے پر بھی مجبور کیا جاسکتا ہے اور یہ فروخت بھی کارپوریٹ کی مرضی اور ان کی شرائط کے مطابق ہی ہوسکتی ہے ۔ کارپوریٹ طبقہ اب کسانوں کا کھل کر استحصال کرسکتا ہے ۔ ان کی پیداوار کی قیمت اپنی مرضی سے طئے کرسکتا ہے ۔ جس طرح سے حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کوعالمی مارکٹ کی قیمتوں سے مربوط کرتے ہوئے خود کو بری الذمہ کرلیا ہے اور اب یہ کہتی جا رہی ہے کہ ان قیمتوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے اسی طرح وہ مستقبل میں کسانوں کے ساتھ ہونے والے استحصال پر بھی یہی موقف اختیار کرسکتی ہے اور یہ عذر پیش کرسکتی ہے کہ کسانوں کی پیداوار کی قیمتوں کے معاملے میں بھی اسے اب مداخلت کا اختیار نہیں رہ گیا ہے ۔
مودی حکومت نے اپنے اب تک کے چھ سال کے اقتدار میں ملک کے عوام اور ان کے مفادات کی قیمت پر کارپوریٹ طبقہ کو فائدہ پہونچایا ہے ۔ یہ وہی کارپوریٹ ادارے ہیں جو برسر اقتدار بی جے پی کے حاشیہ بردار ہیں اور انتخابات میں بی جے پی کیلئے سہارا بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ جس طرح سے عوامی شعبہ کے اداروں بی ایس این ایل ‘ ریلویز ‘ انشورنس کے علاوہ دفاع جیسے شعبہ میں بھی اپنے حاشیہ بردار کارپوریٹس کی اجارہ داری کو یقینی بنانے کیلئے بی جے پی حکومت نے کام کیا ہے اسی طرح اب زرعی شعبہ میں بھی اسی کارپوریٹ شعبہ کی مداخلت اور اجارہ داری کو یقینی بنادیا گیا ہے ۔ اس کا یہ اقدام نہ ملک کے مفاد میں ہے اور نہ عوام کو روٹی فراہم کرنے والے کسانوں کے مفاد میں ہے ۔