لکھنو۔ مجوزہ لو ک سبھا الیکشن کے پیش نظر کانگریس نے اترپردیش کی80میں سے 26سیٹوں کی نشاندہی کرلی ہے جہا ں سے اسے جیت کے آثار دیکھائی دے رہے ہیں۔
یعنی یوپی میں جہاں کانگریس کے حالات پہلے سے ہی خراب ہیں اور الیکشن کے لئے کافی کم وقت باقی ہے ایسے میں اب پارٹی وہاں ان سیٹوں پرتوجہہ دی گی جہاں تھوڑی بہت مضبوط ہے۔کانگریس اترپردیش میں سرگرم ہوگئی ہے۔اس کے لئے پارٹی نے جیوترادیہ سندھیا کو اور پرینکا گاندھی کو جنرل سکریٹری بناکر مغربی اترپردیش میں کی ذمہ داری دی ہے۔
حالانکہ یوپی میں کانگریس کی نئی ٹیم کے پاس خود کو ثابت کرنے کے لئے دومہینے سے بھی کم وقت بچا ہے اس لئے کانگریس صرف ان انتخابی حلقوں پر ہی توجہہ رکھے ہوئے ہے‘ جہا ں جیت کے اثر نمایاں ہوں۔امیٹھی اور رائے بریلی پہلے سے ہی گاندھی خاندان کا گڑھ ہے اور سلطان پور میں بھی 2009میں کانگریس چناؤ جیت چکی ہے۔
اس کے علاوہ باقی 23سیٹوں پر بھی کانگریس نے 2009لوک سبھا الیکشن میں غیرمعمولی طریقے سے شاندار مظاہرہ کیاتھا۔پارٹی نے ان سیٹوں سے پہلے جیت حاصل کرچکے اراکین پارلیمنٹ کو یہاں سے انچارج بنایا ہے۔
ان 23سیٹوں کے علاوہ کانگریس دوسرے علاقیوں سے بھی مقابلہ کرے گی لیکن وہا ں سے جیتنے کی امید محدود رہے گی۔اس لئے پرینکا او رسندھیا ہفتے میں تین دن لکھنو اجلاس کیاتھا ۔ اس دوران انہوں نے یوپی کے مختلف حصوں کی لوک سبھا سیٹوں کو لے کر کارکنوں سے انتخابی تیاریوں کے متعلق بات کی تھی۔ دراصل سماج وادی پارٹی( ایس پی) اور بہوجن سماج پارٹی( بی ایس پی) اتحاد میں کانگریس کو جگہ ملی تو کانگریس نے آخری موقع پر اترپردیش میں تنہا مقابلہ کے لئے مجبور ہوئی۔
ایس پی ‘ بی ایس پی اتحاد نے صرف دوسیٹوں ( امیٹھی ‘ رائے بریلی) ہی کانگریس کے لئے چھوڑی ہے۔ ایک طرف ایس پی او ربی ایس پی او ردوسری جانب بی جے پی کوشکست دینے کے لئے کانگریس نے انتخابی چل چلتے ہوئے پرینکا گاندھی کو سرگرم سیاست کا حصہ بنایا۔پارٹی کوامید ہے کہ پرینکا یوپی کے کچھ سماجی طبقات کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں ‘ جس سے یوپی میں پارٹی کی بنیادیں مضبوط ہونگیں۔
اگر یوپی میں کانگریس عوامی تائیدحاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس سے یوپی میں دو طاقتور سیاسی حلقوں میں کس کو سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔