سپریم کورٹ کی جانب سے اس بات کا جائزہ لیاجارہا ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کیا حصول بلوغت پر شادی کرسکتی ہے

,

   

نئی دہلی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے 2018میں ہادیہ او رشیفان جہاں کی شادی کے متعلق سنائے گئے فیصلہ جو مسلم شادی کی تصدیق کے لئے مقرر ایک شرط جیسے سن بلوغ کو پہنچانا ہے کی بنیاد پر سنایاگیاہے فیصلہ ہے‘

اس کی وجہہ سے ایک غیرمعلنہ قانونی پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے کہ‘ ایک16سالہ لڑکی نے اب عدالت عظمی میں درخواست پیش کی ہے کہ وہ سن بلوغ کو پہنچ گئی ہے اور اس کی شادی کو تسلیم کیاجائے۔

ہندوستان میں شادی کی عمر لڑکی کے لئے اٹھارہ سال ہے جبکہ لڑکوں کی عمر 21سال ہونی چاہئے‘ دونوں کی اسپیشل میریج ایکٹ1954کے تحت درج کیاگیا ہے اور اس کے لئے کم عمر میں شادی کی روک تھام ایکٹ2006شادی کی حد عمر طئے کی گئی ہے۔

مگر شیفان جہاں کے معاملے میں عدالت نے محسوس کیاہے کہ مسلم شادی طئے ہوجاتی ہے اگر چکہ کے مندرجہ ذیل شرائط کوملحوظ رکھا جائے۔

دونوں مذاہب اسلام کے ماننے والے ہوں‘ دونوں بلوغت کی عمر کو پہنچ گئے ہوں۔ دوگواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول پیش کیاجائے‘ مہر کی ادائیگی اور تعلقات کی عدم موجودگی کے متعلق ممنوعہ ڈگری۔

شیفان جہاں بمقابلہ اشوکن کے ایم کے ضمن میں 2018میں سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے مذکورہ 16سالہ مسلم لڑکی نے وکیل کے ذریعہ عدالت میں یہ اقدام اٹھایاہے

جس کے ذریعہ وہ الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب اس کی شادی کو شادی کے لئے مقرر کردہ قانونی عمر سے کم ہونے کی وجہہ سے غیرمصدقہ قراردیتے ہوئے شیلٹر ہوم بھیجنے کا جو فیصلہ سنایا ہے اس کو چیالنج کرنے لڑکی کامقصد ہے۔۔

جسٹس این وی رامنا‘ اندرا بنرجی اور اجئے روہتگی پر مشتمل ایک بنچ نے پٹیشن کو قبول کرتے ہوئے یوپی حکومت سے دوہفتوں کے اندر جواب طلب کیاہے۔

پرشار نے سپریم کورٹ سے یہ کہاکہ کیس میں حقائق کی جانچ شیفان جہاں فیصلے کی مناسبت سے کی جائے جس کو مصدقہ شادی قراردیاگیا ہے‘ کیونکہ دونوں سولہہ سال کی لڑکی اور 24سال کا لڑکا اور دونوں اسلام کے ماننے والے ہیں‘

سن بلوغ کو پہنچ گئے ہیں‘ وہاں پر ایجاب وقبول بھی کیاگیا‘ مہر ادا کی گئی اورلی گئی اور لڑکا لڑکی کی رضا مندی سے نکاح نامہ تیار کیاگیاہے۔ اس لڑکی کے والد نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی کہ مبینہ طور پر مذکورہ لڑکے نے اس کی نابالغ لڑکی کااغوا کیاہے۔

مگر لڑکی نے 164سی آر پی سی کے تحت مجسٹریٹ کے روبرو درج اپنے بیان میں کہاکہ اپنی مرضی سے اس نے لڑکے سے شادی کی ہے اور وہ لڑکے ساتھ زندگی گذارنا چاہتی ہے۔

مگر یوپی کے بھائی رائج میں ایک عدالت نے 24جون کے روز دیکھا کہ لڑکی شادی کے لئے مقرر عمر تک نہیں پہنچی ہے اور ہدایت دی کہ چائلڈ ویلفیر کمیٹی کی تحویل میں اس وقت تک رکھا جائے جب تک وہ 18سال کی نہیں ہوجاتی ہے۔

اڈوکیٹ پرشاہار نے شیفان جہاں معاملہ کا حوالہ دیا جس میں سپریم کورٹ نے کہاتھا کہ زندگی کے ہمسفر کا انتخاب کرنے کا اختیار دستوری ضمانت ہے۔

انہوں نے کہاکہ لڑکی کے والد غیرضروری مداخلت کرتے ہوئے اس کے حقوق پامال کررہے ہیں جبکہ وہ سن بلوغ کو پہنچ گئی ہے اور اس کے پاس مقصدقہ نکاح نامہ بھی موجود ہے