شاہ فیصل’’دستور کے تحت جو لوگ کشمیر کا حل تلاش کرنا چاہارہے تھے ان کے چہرے پر تمانچہ ہے“

,

   

سال2009میں ائی اے ایس ٹاپر بننے والے پہلے کشمیری تھے فیصل‘ جنھوں نے اسی سال اپنے خدمات سے استعفیٰ دے کر جمو ں او رکشمیر پیپلز مومنٹ کی شروعات کی اور ان کا مقصد مرکزی دھاری کی انتخابی سیاست میں کا حصہ بننا ہے۔

نئی دہلی۔ شاہ فیصل جنھوں نے انڈین ایڈمنسٹرٹیو خدمات چھوڑ کر جموں اور کشمیر میں مرکزی دھاری کی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیاہے نے کہا کہ خصوصی موقف کو برخواست کرنے اور دو یونین ٹریٹریز میں ریاست کو تقسیم کرنے کا فیصلہ دراصل ”ریاست میں مرکزی دھاری کی سیاست کی ایک موت ہے“ اور ”دستور کے تحت جو لوگ کشمیر کاحل تلاش کرنا چاہارہے تھے ان کے چہرے پر ایک تمانچہ ہے“۔

انہوں نے انڈین ایکسپریس سے کہاکہ ”میں اسی تاریخی تباہ کن موڑ کے طرز پر دیکھ رہاہوں‘ ایک روزجب ہر کوئی ایسا احساس کررہاہے کہ اس کی شناخت‘ تاریخ‘ ہمارا حق اضی یا پھر جینے کا حق قبر میں پہنچادی گئی ہے‘ غیض وغصب کا ایک نیا دور 5اگست سے شرو ع ہوگیاہے“۔

سال2009میں ائی اے ایس ٹاپر بننے والے پہلے کشمیری تھے فیصل‘ جنھوں نے اسی سال اپنے خدمات سے استعفیٰ دے کر جمو ں او رکشمیر پیپلز مومنٹ کی شروعات کی اور ان کا مقصد مرکزی دھاری کی انتخابی سیاست میں کا حصہ بننا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ”8ملین لوگوں کو قید میں غیر یقینی صورتحال میں چھوڑدیا گیا ہے ان کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کیاگیاہے‘

تمام رابطے بند کردئے گئے ہیں اور ایسا ڈھٹائی کا مظاہرہ کیاجارہا ہے کہ ریاست کی خاطر ہزاروں نوجوانوں کو مارنے کے لئے تیار ہیں اس طرح کا پیغام نہایت تشویش ناک ہے“‘ انہوں نے کشمیر کے موجودہ حالات کے حوالے سے یہ بات کہی ہے۔

انہو ں نے کہاکہ ”سیاسی جماعت کے پا س اس بات کی دلیل تھی کہ ہم خصوصی موقف کو بچانے جارہے ہیں‘ یہ یہا پر اب بھی ہماری تہذیب‘ ہماری سیاست جس کی شرعات انڈین یونین کے ساتھ ہوتی ہے اس کو بچانے کے راستے باقی ہیں۔

اس حکومت نے اس دلیل کو ہی ختم کردیا کیونکہ مذکورہ جموں کشمیر ریاست ہی ختم کردی گئی‘ اس کے دستوری ضمانتیں تباہ ہوگئیں“۔

شاہ فیصل نے کہاکہ ”انتہا پسندی کا پہلو اب اس کی باگ ڈور ہوگئی ہے‘

وہ لوگ جو ہمیشہ مانتے تھے کہ ہندوستان کبھی بھی کشمیری عوام کے ساتھ ایماندار او رسنجیدہے نہیں رہا ہے‘ آج ان کی جیت ہوگئی ہے‘ اس کا احساس کس قدر برا ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے“۔

فیصل نے کہاکہ ”حقیقی حالات اس وقت سمجھ میں ائیں گے جب کرفیو ہٹایاجائے گا۔ ایک مرتبہ اس کی شروعات ہوگئی تو لوگ ان سخت اقدامات کے نتائج کا سامنا شروع کردیں گے‘

یومیہ اساس پر غیض وغضب کے واقعات کی شروعات ہورہی ہے اور لوگ اپنے زمین‘ ان کی شناخت اور جو حقیقت میں ان سے چھین لی گئی ہے اس کے لئے فکر مند ہیں۔

میں سمجھتاہوں نتائج کا پہلے سے اندازہ ہے۔میں ڈرا ہوا اس لئے ہوں کہ کشمیر کہیں کشیدگی کے نئے مرحلے میں شامل نہ ہوجائیں‘ جس کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے“۔