طلاق ثلاثہ قانون کے خلاف عرضداشتوں کو سپریم کورٹ نے کیا قبول ۔ مرکزی حکومت کو ملی نوٹس

,

   

سپریم کورٹ نے تین طلاق سے متعلق قانون کے آئینی جوازکو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر جمعہ کو مرکزی حکومت سے جواب طلب کیاعدالت عالیہ نے جمعیت علماء ہند اور دو دیگر کی عرضداشتوں کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے۔ عرضی گزاروں نے مسلم خواتین (شادی سے متعلق حقوق کا تحفظ)قانون 2019 کے آئینی جوازکو چیلنج کیا ہے۔

مودی سرکار کے دوسرے دور میں پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں منظور کردہ طلاق ثلاثہ سے متعلق قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے۔ سپریم کورٹ نے مسلم برادری میں طلاق ثلاثہ کو قابل سزا جرم بنانے کے قانونی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پرغور کرنے پراتفاق کیا ہے۔ اس قانون کے خلاف تین الگ الگ درخواستیں دائر کی گئیں ہیں۔ جمعہ کے روز ، جسٹس این وی رمنا کی عدالت نے ‘مسلم خواتین شادی حقوق تحفظ قانون 2019 کے خلاف دائر کی گئی عرضداشتوں کوسماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے مرکز کو نوٹس جاری کرکے جواب دینے کو کہا ہے۔

بینچ نے سینئروکیل سلمان خورشید کو یقین دلایا کہ کورٹ اس معاملہ کا جائزہ لےگا۔خورشید نے عدالت کو بتایا کہ طلاق ثلاثہ کو قابل سزا جرم اور تین سال تک کی جیل قید سمیت کئی ایسے امور ہے جس کا جائزہ لیاجاناچاہیے۔جس کے بعد عدالت نے درخواستوں کو قبول کرتے ہوئے حکومت اور مختلف وزارتوں کو نوٹس جاری کیں۔

جمعرات کوجمعیت علمائے ہند کی جانب سے اس قانون کو چیلنج کرتے ہوئے ایک نئی درخواست دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون مبینہ طورپر آئین کی دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ درخواست میں ‘مسلم خواتین شادی حقوق تحفظ قانون 2019کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

YouTube video