فرضی انکاونٹر بہیمانے قتل کے سوا کچھ بھی نہیں۔مارکنڈے کاٹجو

,

   

حیدرآباد پولیس کی جانب سے ڈاکٹر پرینکا ریڈی کی عصمت دری کرنے والے چار ملزمین کے انکاونٹر نے ایک با ر پھرہندوستانی پولیس کے ایک بڑے حصے کے ذریعء ماورائے عدالت قتل کو اختیار کرنے اوراسے دوبارہ بحال کرنے کے جوازپر سوال کھڑے کردئے ہیں۔

مہارشٹر پولیس نے ممبئی میں انڈرورلڈ ڈاؤن سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر انکاونٹر کااستعمال کیا۔

اسی طرح پنجاب پولیس نے خالصتان کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ بھی یہی کیا۔ سال2017میں یوگی کے وزیر اعلی بننے کے بعد اترپردیش کی پولیس بھی یہی کررہی ہے لیکن سچائی ہے کہ اس طرح کے انکاونٹر سرے سے انکاونٹر ہے ہی نہیں بلکہ یہ پولیس کی جانب سے بہیمانہ قتل ہے۔

اگر اس کے باوجود بھی ایسا شخص قصور وار پایا جاتا ہے تواسے تختہ دار پر لٹکایاجاسکتا ہے۔ اس کے برعکس فرضی انکاونٹر میں اس پورے قانونی طریقہ کار کو یکسر نظر انداز کردیاجاتا ہے۔ اس کا مطلب کسی کو مقدمہ کے بغیر قتل کرنا ہے اوراسی وجہہ سے یہ پوری طرح ائینی ہے۔

پولیس والے اکثر اس طریقہ کار کا یہ کہہ کر دفاع کرتے ہیں ایسے خطرناک بدمعاش موجود ہیں جن کے خلاف کوئی گواہی دینے کی ہمت نہیں کرے گا اس لئے ان بدمعاشوں سے نمٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کا فرضی انکاونٹر کردیاجائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک خطرناک فلسفہ ہے اور اس کاغلھ استعمال کیاجاسکتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کوئی تاجر اپنے حریف کے راستے سے ہٹانا چاہتا ہے تو چند بے ایمان پولیس والوں کو رشوت دے کر اپنے حریف کو فرضی انکاونٹر میں ختم کراسکتا ہے۔

پرکاش کدم بنارام پرساد وشواناگپتا مقدمہ میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پولیس کے ذریعہ فرضی انکاونٹر بہیمانہ قتل کے علاوہ او رکچھ نہیں ہے او رجو لوگ اس کا ارتکاب کررہے ہیں‘ انہیں شاذ ونادر واقعہ کے زمرے میں ڈال کر سزائے موت دی جانی چاہئے۔

اس فیصلے کے پیرافراف 26میں کہاگیا ہے کہ ”ٹریگر دبانا پولیس والوں کو خوشی دیتا ہے کیونکہ وہ سونچتے ہیں وہ انکاونٹر کے نام پر لوگوں کو قتل کرسکتے ہیں اور ان کا کچھ نہیں ہوگالیکن انہیں یہ جاننا چاہئے کہ پھانسی کا پھندہ ان کا انتظار کررہا ہے“۔حیدرآباد کے واقعہ میں پوری طرح واضح ہے کہ یہ انکاونٹر فرضی تھا۔

چاروں ملزمین پولیس کی حراست میں تھے اور غیر مسلح تھے۔

ایسے میں یہ حقیقی انکاونٹر کیسے ہوسکتا ہے؟۔میں اس تحریک کو الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اے این ملا کے فیصلے کا اقتباس پیش کرککے ختم کررہاہوں“۔

جسٹس اے این ملانے اپنے فیصلے میں کہاتھا“میں انتہائی ذمہ داری کے ساتھ یہ بات کہتاہوں کہ ملک میں کوئی قانون شکن ایسا گروپ موجود نہیں جس کے جرام واحد منظم تنظیم ہندوستانی پولیس فورس کے آس پاس بھی پھٹکتے ہوں۔

چند ایک چھوڑ کر پولیس والے اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ قانون کی پیروی کرتے ہوئے نہ تو جرم کی تفتیش ہوسکتی ہے اور نہ ہی سکیورٹی برقرار رکھی جاسکتی ہے اور وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ یہ صرف قانون شکنی کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے“۔