مجاہد آزادی و عوامی لیڈر پرکاشم پنتلو

   

ڈاکٹر ٹی نرہری

گوپالا کرشنیااور سبماں کی 6 اولادیں تھیں۔ ان کے تیسرے فرزند پرکاشم ہیں جو23 اگسٹ 1872 ء میں بمقام ونود رانیہ پالیم ضلع اونگل میں ان کے ماموں کے گھر میں پیدا ہوئے۔ پرکاشم کی عمر جب گیارہ سال تھی ان کے والد گوپالا کرشنیا کا دیہانت ہوگیا۔ پرکاشم کی والدہ سبماں اونگول عدالت میں ہوٹل چلا کر اپنے گھر کی ذمہ داریاں پوری کررہی تھیں۔ انہوں نے کافی مصائب جھیلتے ہوئے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا پورا پورا خیال رکھا۔ پرکاشم نے اڈلکی ولور میں تحتانوی تعلیم حاصل کی۔ بچپن میں وہ کافی شرارتی تھے۔ مشن ہائی اسکول اونگول میں ثانوی تعلیم حاصل کی ۔ ایمینی ہنمنت راؤ جو مشن ہائی اسکول کے مدرس تھے پرکاشم ان کے نہایت پسندیدہ شاگرد تھے۔ جب ہنمنت راؤ کا تبادلہ راجمندری ہوا تب وہ اپنے ساتھ پرکاشم کو بھی لے گئے اور وہاں انہیں پڑھایا۔ پرکاشم نے راجمندری میں ایف اے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مدراس کا رُخ کیا اور وہاں کالج کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے سیکنڈ گریڈ وکیل کی ڈگری حاصل کی۔ پرکاشم نے اونگول اور راجمندری میں وکالت کی پریکٹس کرتے ہوئے کافی شہرت حاصل کی۔
ایک مقدمہ کی پیروی کیلئے پرکاشم مدراس ہائی کورٹ گئے وہاں پر ایک وکیل نے ان کا مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا کہ تم صرف سیکنڈ گریڈ لائر ہو بیرسٹر نہیں، جس کو پرکاشم نے اپنی توہین تصور کرتے ہوئے مصمم ارادہ کے ساتھ لندن روانہ ہوئے اور وہاں پر بیرسٹر کی تعلیم حاصل کی اور امتحان میں اعلیٰ نشانات کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے کے بعد 1907 میں مادر وطن لوٹ آئے ۔ پرکاشم عزم مصمم رکھنے والی شخصیت تھے۔ انہوں نے مدراس میں پریکٹس شروع کی اور کئی مقدمات میں کامیابی سے پیروی کرتے ہوئے کافی شہرت حاصل کی اور ساتھ ساتھ انہوں نے جائیداد، ملکیت اور دولت بنائی۔ مدراس ہائی کورٹ بارکونسل کے لیڈر کی حیثیت سے انہوں نے کافی مقبولیت حاصل کی۔
پرکاشم نے بچپن سے ہی کھیل کود اور ناٹکوں میں حصہ لے کر کافی شہرت حاصل کی تھی۔ ’ چیلکا مورتی لکشمی نرسمہا ‘ ڈرامہ میں پرکاشم نے گلوکار کی اہلیہ کا کردار اداکیا، وہ کافی خوبصورت تھے۔ بعد میں انہوں نے انکم ناٹک میں ارجن کا کردار ادا کیا۔ خاتون کردار میں پرکاشم نے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کے ذریعہ بہتر انداز میں لوہا منوایا۔
ہندوستان میں غیروں کی حکمرانی کے خلاف چلائی جانے والی مہم میں پرکاشم نے حصہ لیا۔ انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرکے انقلابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1921 میں مہاتما گاندھی نے عدم اشتراک کا نعرہ دیا تھا تب پرکاشم کو پیشہ وکالت سے کافی آمدنی ہورہی تھی لیکن انہوں نے اس پیشہ کو خیرباد کہتے ہوئے مکمل طور پر وہ آزادی مہم میں مصروف ہوگئے۔ 1921 میں پرکاشم نے روز نامہ ’’ سوراجیہ ‘‘ شروع کیا۔ اس روز نامہ میں مضامین کے ذریعہ ہندوستانیوں کو آزادی تحریک سے وابستہ کرنے اور ان میں حب الوطنی کے جذبات پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس طرح ’ سوراجیہ ‘ کافی مقبول ہوا۔ اس تحریک آزادی مہم اور اخبار چلانے کیلئے انہوں نے تمام تر جائیداد و ملکیت اور دولت صرف کی۔ آزادی حاصل کرنے کیلئے ہندوستانی اہل ہیں یا نہیں یہ جانکاری حاصل کرنے کیلئے برطانوی حکومت نے 1927 ء میں سایمن کمیشن قائم کیا۔ ہندوستانیوں نے اس کمیشن کی مخالفت میں زور و شور سے مہم چلائی۔ یہ تحریک 1925 ء میں ’’ سایمن واپس جاؤ ‘‘ کے نعرے کے ساتھ شدت اختیار کرچکی تھی۔ اس احتجاجی تحریک پر مدراس پولیس نے گولیاں برسائی اور اس فائرنگ میں پارتھا سارتھی نامی ایک احتجاجی ہلاک ہوا۔ اس شہید نوجوان کی نعش تک پہنچنے میں دیگر احتجاجی کافی خوفزدہ ہوئے ۔ عوام خوف و سراسیمگی کی حالت کا سامنا کررہے تھے کیونکہ فائرنگ کرنے کیلئے پولیس بندوقیں تھامے ہوئے تھی۔ ایسے موقع پر پرکاشم نے سینہ تان کر ان پر فائرنگ کرنے والی پولیس کو چیلنج کرتے ہوئے شہیدکی نعش کے پاس پہنچ کر اسے خراج عقیدت پیش کیا۔ اس دن سے عوام پرکاشم کو ’’ آندھر ا کیسری ‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔
1942 میں چلائی گئی ’’ ہندوستان چھوڑ دو ‘‘ تحریک میں حصہ لے کر پرکاشم نے تین سال جیل کی سزا کاٹی ۔پارٹی میں مختلف عہدوں پر فائز ہوکر اپنے فرائض و ذمہ داریاں بخوبی نبھاتے ہوئے کافی داد حاصل کی۔35 سال کی عمر میں پرکاشم راجمندری میونسپل کارپوریشن صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔1926 میں رکن مرکزی کمیٹی کی حیثیت سے منتخب ہوئے اور 1937 میں مدراس اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔ راجہ جی کی قیادت میں قائم ہوئی کابینہ میں وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھالا ۔ ترقی اسکیم کو نافذ کیا اور ریاست کو 25 زونس میں تقسیم کیا۔عوام کو درپیش مسائل کی یکسوئی کیلئے سعی کرتے ہوئے عوام کے دلوںمیں اپنامقام بنایا۔ 1946 ء میں وزیر اعلیٰ مدراس پریسڈینسی کی حیثیت سے پروڈکشن کنزیومرس کوآپریٹیو سوسائٹی قائم کی۔ غذائی مشاورتی سمیتی، فوڈ اڈوائزری سوسائٹی قائم کی۔ کھادی کے فروغ کیلئے انہوں نے خصوصی طور پر مہم چلائی۔ 1953 ء میں قائم ہوئی ریاست آندھرا پردیش کے پہلے وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
ایس وی یونیورسٹی قائم کی اور وجئے واڑہ میں کرشنا بیاریج تعمیر کروایا اور اس طرح پرکاشم عوامی وزیر اعلی کی حیثیت سے بے لوث خدمات انجام دیتے ہوئے اپنا لوہا منوایا۔1955 میں رکن اسمبلی اونگول کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔ کسی بھی مقام پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑنے پر فوری متاثرہ مقام پرپہنچ کر پرکاشم پنتلو حالات پر قابو پانے اور پُرامن اور سازگار ماحول پیدا کرنے کیلئے اقدامات کرتے تھے تب ان کی عمر 76 برس تھی۔ رضاکارانہ تحریک کے دور میںحیدرآباد کی سرحد پر جانے کیلئے عوام ڈرتے تھے، عہدیداران اور کئی بڑے لیڈروں نے سرحد پر نہ جانے کا مشورہ دیالیکن پرکاشم پنتلو نے ضلع نلگنڈہ کے مقام کوداڑ پہنچ کر عوام کو سمجھاکر ان میں ہمت و جرأت پیدا کی۔رضاکاروں نے پرکاشم کو اپنے گشتی سنٹر پر لے جاکر انہیں مشروبات پیش کرکے انہیں وہاں سے صحیح سلامت روانہ کیا۔ پرکاشم میں جرأت، حوصلہ، عزم مصمم اور خدمت کا جذبہ مسلسل کاوشیں اختیار کرتا رہا۔پرکاشم میں انتہائی پیچیدہ مسائل کو بھی سلجھانے کا جذبہ موجود تھا۔پرکاشم نے کبھی بھی عہدوں کا مطالبہ نہیں کیا ، وہ عوامی لیڈر اور حب الوطن شخصیت تھے۔ پرکاشم ایک متوسط گھرانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ غریبی میں پرورش اور تعلیم و تربیت ہوئی۔ کافی دولت وو جائیداد حاصل کی اور اسے ملک کی آزادی کی تحریک میں صرف کیا اور آخر میں مفلسی میں زندگی گذاری۔زندگی کی آخری سانس تک پرکاشم نے عوامی خدمت کیلئے اپنے آپ کو وقف کردیا اور اس مجاہد آزادی نے 20 مئی 1957 کو آخری سانس لی۔
اسوقت کی حکومت نے اضلاع نیلور، گنٹور، کرنول کے کچھ علاقوں کو ملا کر ضلع انگول تشکیل دیا تھا ۔ پرکاشم پنتلو کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آندھرا پردیش حکومت نے اس ضلع کا نام 5 ڈسمبر 1972 کوضلع پرکاشم رکھا۔٭