مشرق وسطیٰ کے تحفظ کیلئے ایران پر اسلحے کی پابندی ضروری :برائن ہک

   

l دنیا کو ایران کی طرف سے انتقام لینے کی دھمکیوں کو نظرانداز کرنا چاہئے
l ایران کیلئے امریکہ کے خصوصی قاصد برائن ہک کا ریمارک
تہران ۔ ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی برائن ہْک نے کہا ہے کہ تہران دنیا بھر میں بدمعاش حکومتوں اور دہشت گرد تنظیموں کے لیے اسلحے کا سپلائر ہے۔ دہشت گردوں کو جنگی ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کے لیے یران پر اسلحہ کے حصول پرعاید پابندی میں توسیع ضروری ہے۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹ پریس کو دیے گئے ایک انٹرویو برائن ہک نے کہا کہ اگر اکتوبر میں ختم ہونے والے اسلحے کے پابندی میں توسیع کردی گئی کرنا ضروری ہے۔ دنیا کو ایران کی طرف سے انتقام لینے کی دھمکیوں کو نظر انداز کرنا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ دھمکیاں عموما مافیا کی تدابیر ہوتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ ایرانی قوانین کے مطابق کھیلیں گے تو ایران جیت جائے گا۔ یہ ایک مافیا کا طریقہ ہے۔ ایران میں شہریوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی خراب صورتحال کے خوف سے کسی مخصوص طرز عمل کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ایک سوال کے جواب میں برائن ہک نے کہا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی نگرانی کرنے والے بین الاقوامی معائنہ کاروں کو ملک بدر کرنے کا سہارا لے سکتا ہے۔ ایسے کسی بھی اقدام سے 2015 میں عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ طے پائے جوہری معاہدے پر بحران مزید گہرا ہوجائے گا۔اقوام متحدہ کے اسلحے کی پابندی نے اب تک ایران کو جنگجوؤں ، ٹینکوں ، جنگی جہازوں اور دیگر ہتھیاروں کی خریداری سے محروم کر رکھا ہے مگر تہران جنگی علاقوں میں اسلحہ اسمگلنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ہْک کا کہنا ہے کہ تھا مشرق وسطی کو محفوظ بنانے کے لیے تہران پر اسلحہ کی پابندی کا نفاذ لازمی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایران پر عاید کردہ اسلحے کی پابندیاں ختم کر دیتے ہیں۔ آپ یقین کریں کہ ایران جو کچھ چھپ چھپ کر کر رہا تھا اس کے بعد وہ اعلانیہ کرے گا۔ایران اور امریکہ کے درمیان 2015 ء میں کئے گئے نیوکلیئر معاہدہ سے امریکہ کے باہر نکل جانے کے بعد ایران اور امریکہ کے تعلقات میں پھر کبھی ویسی گرم جوشی نہیں دیکھی گئی جو 2015ء میں تھی حالانکہ کوروناوائرس وبا پھیلنے کے بعد جب ایران میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا تو اس وقت امریکہ نے ایران کی ہر ممکنہ مدد کرنے کا تیقن د یا تھا جبکہ خود امریکہ اس وائرس سے متاثرہ اور ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں سرفہرست تھا حالانکہ ایرانی وزیرخارجہ محمد جوادظریف اور امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کے درمیان یوں تو کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن نیوکلیئر اسلحہ اور یورینیم افزودگی کے معاملہ پر کبھی بھی دونوں قائدین سر جوڑ کر نہیں بیٹھ سکے۔