میرے سامنے احتجاج ، عدالتی احکام سب بیکار! تلنگانہ آر ٹی سی ہڑتال

   

خیراللہ بیگ

ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی یہ ہڑتال تمام سرکاری ملازمین کے لیے بہت بڑا سبق ہے ۔ اگر وہ اس سے کچھ سیکھ سکیں ۔ بدقسمتی سے تلنگانہ میں سیاستدانوں کی تربیت کا نظام بھی اب ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ اس سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ جس سیاسی نظام کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ اگر اس میں بھی کچھ نہیں سیکھ سکے تو پھر جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر چلتے رہتے ہیں ۔ آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سیاستدانوں کی کثیر تعداد ہونے کے باوجود حکمراں سیاستداں کا بانکا بھی بینگا نہیں کرسکتے ۔ آج تلنگانہ میں ساری اپوزیشن پارٹیوں کے سیاستداں قانون داں اور یونینوں کے قائدین ایک طرف تو چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ کی ہٹ دھرمی دوسری طرف ہے اور اس سارے معاملہ میںعوام کو ملنے والی تکلیف اور اذیت کا کوئی حساب نہیں رہتا ۔ ٹی آر ایس حکومت اپنے لیے جو بہتر سمجھ رہی ہے اس کو سچ کی پالیسی بتا کر آگے بڑھا رہی ہے ۔ ایک سے زائد موقع پر اپوزیشن پارٹیوں نے چیف منسٹر کے سی آر کی طرز حکمرانی کو آمریت پسندانہ قرار دیا ہے ۔ ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال سے نمٹنے کے لیے جو رویہ اپنایا ہے ۔ اس کی سابق میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ کے سی آر اس ضد پر قائم ہیں کہ وہ ہڑتالی ملازمین کے آگے ہرگز گھٹنے نہیں ٹیکیں گے ۔ ریاست میں حکمراں پارٹی کے سوا کسی بھی سیاسی طاقت کے وجود کا احساس ختم ہوتا جارہا ہے اور شہری معاشرہ کے سی آر کی اختیار کردہ پالیسیوں کی گرفت میں ہے ۔ آج جو کچھ حالات پائے جارہے ہیں اس کے لیے حکومت کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے ۔ کے سی آر کی حکومت نے عدلیہ کو بھی نوک پر رکھا ہے ۔ تلنگانہ ہائی کورٹ نے ایک سے زائد مرتبہ چیف منسٹر کو تنبیہہ کی ہے لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہیں دیکھا گیا ۔ سماجی کارکنوں یا میڈیا کے لوگوں کی بھی چیف منسٹر کو کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ تلنگانہ ہائی کورٹ کی جانب سے ٹی یس آر ٹی سی مسئلہ پر حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے کے باوجود ٹس سے مس نہ ہونا بھی یہ کے سی آر کا اپنا طرز عمل ہے ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ٹی آر ایس کا ریاست کے ہر کونے کونے میں کامیابی کا سفر جاری ہے ۔ حالیہ حضور نگر اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ٹی آر ایس کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد گویا کے سی آر کے تکبر و غرور کے گھوڑے کو پَر لگ گئے ہیں ۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد سے سیاسی اختلافات کو ذاتیات اور دشمنی تک لے جانے کی روایت اور عدم برداشت کا رویہ بھی بڑھ رہا ہے ۔

لہذا ٹی آر ایس حکومت بھی اپنے مخالفین کو برداشت نہ کرنے کا تہیہ کرلیا ہے ۔ حضور نگر ضمنی انتخابات میں اصل اپوزیشن کانگریس کو شکست فاش دینے کے بعد ٹی آر ایس سربراہ نے آنے والے میونسپل انتخابات میں 130 سے زائد میونسپلٹیز میں بھی کامیابی کے جھنڈے لہرانے اور ٹی آر ایس کو پہلے سے زیادہ بنیادی سطح سے مضبوط بنانے کا اعلان کیا ہے وہ آئندہ ماہ ہونے والے بلدی انتخابات میں بھی ٹی آر ایس کو اگر اپوزیشن کے ساتھ سخت مقابلہ نہیں رہا تو پھر ٹی آر ایس کو یکطرفہ کامیابی ملے گی ۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات ٹی آر ایس کے لیے مایوس کن رہے کیوں کہ اس نے صرف 9 حلقوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ کانگریس 3 اور بی جے پی نے چار پر کامیابی حاصل کی تاہم کے سی آر نے منڈل پریشد ، ضلع پریشد میں پارٹی کو زبردست کامیابی دلانے کے بعد حضور نگر اسمبلی حلقہ کو کانگریس سے چھین لیا ۔ اب آنے والے میونسپل انتخابات میں پارٹی امیدواروں کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی تیار کی جائے گی ۔ 2014 کے میونسپل انتخابات میں بھی اس نے اچھا مظاہرہ کیا تھا ۔ اصل مسئلہ تو ملک کی قدیم پارٹی کانگریس کا ہے جس کا سیاسی وجود جھکولے کھا رہا ہے ۔ تلنگانہ پردیش کانگریس میں اس وقت بعض قائدین نہایت ہی تجربہ کار اور ہائی کمان کے سینئیر قائدین کے ساتھ دیرینہ سیاسی وابستگی رکھتے ہیں ۔ کانگریس میں بزرگوں اور تجربہ کار لوگوں کی کمی نہیں ہے ۔ ان میں کچھ تو ایسے بھی ہیںجو راجیو گاندھی اور اندرا گاندھی سے بالمشافہ ملاقات کرتے ہوئے بات چیت بھی کرچکے ہیں ۔ ان قائدین کے تجربہ سے نئے کانگریسیوں کو کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ کانگریس نے اپنی طویل عمر میں تجربات کا ایک خزانہ جمع کر رکھا ہے ۔ لیکن کانگریس ہائی کمان کی حیثیت سے ایک نوجوان لیڈر کے قدم مضبوط کرنے میں وہ ناکام رہے ۔ نتیجہ میں راہول گاندھی بیزارگی کے عالم میں پارٹی عہدہ سے دوری اختیار کرلی ہے ۔

اس کی بڑی وجہ پارٹی میں عدم ڈسپلن کی کیفیت بتائی جاتی ہے ۔ سیاسی پارٹیاں شخصیات پر چلتی ہیں ۔ اب کانگریس کو ایک متحرک کرشماتی شخصیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ مرکز و ریاستی سطحوں پر پارٹی کے اندر نئی جان ڈال سکے اور علاقائی پارٹی قائدین کے حوصلے بلند کرسکے ۔ کانگریس کی موجودہ درگت سینئیرس کے پند و نصائح اور مفید مشورے قبول نہ کرنے کا نتیجہ ہے ۔ اپنی پے در پے ناکامیوں کے باوجود کانگریس کی مرکزی کارگزار قیادت خود کو متحرک کرنے سے دور ہے ۔ ایک تو کانگریس کا نامہ اعمال کچھ اتنا بھلا نہیں ہے ۔ غلط یا صحیح اس پارٹی کے تعلق سے رائے دہندوں کی رائے تبدیل ہورہی ہے ۔ کانگریس اپنے اندر ہیروز اور ویلن دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چل رہی ہے ۔ گویا پارٹی کے اندر ہی ویلن نقصان کا کام کررہے ہیں ۔ ان کے لگائے گئے چند داغ ایسے ہیں جو مٹائے نہیںمٹ رہے ہیں ۔ بہر حال تلنگانہ میں کانگریس کو اپنے احیاء کی فکر کرنی چاہئے ۔ اس کے پردیش قائدین کی تقاریر مایوسی کا مظہر ہیں اور برہنہ گفتاری بھی آتی جارہی ہے ۔ دوسروں کے گڑھ کھودنے سے زیادہ اپنے کھڈوں کو بھرنے کی فکر کرنا ضروری ہے ۔ اس پر عوام کے بچے کچے اعتماد کو سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کے اعتماد کو خاک میں ملانے کی حرکتوں سے باز آنا چاہئے ۔ کل تک کانگریس عوام کے لیے ماں کی جیسی تھی اور مجرموں کے لیے ’ سوتیلی ماں ‘ کی جیسی بنی ہوئی تھی لیکن آج اس کا اُلٹا معاملہ ہے ۔ اس کی ناکامیوں نے اس کے تعلق کچھ ایسی ہی کہانیاں گھڑدی ہیں ۔ کامیابی کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے ان کہانیوں کو مات دینے کی کوشش ہونی چاہئیے ۔ حضور نگر ضمنی انتخاب میں خراب کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے کانگریس نے اپنا محاسبہ کرنا شروع کیا ہے ۔ کانگریس کے اندر اپنی من مانی چلانے والے لیڈروں میں ریونت ریڈی کا نام بھی بہت لیا جارہا ہے ۔ انہوں نے پارٹی کے سینئیر قائدین کو اطلاع دئیے بغیر آر ٹی سی ہڑتال کی حمایت میں پرگتی بھون پر احتجاج کیا ۔ یہ احتجاج پارٹی کے حق میں فائدہ کے بجائے گھاٹے کا معاملہ بن گیا ۔ اس پر پارٹی کے سینئیر قائدین شدید ناراض ہیں ۔ بہرحال کانگریس نے اپنی ساکھ بچانے کی چکر میں اپنے قائدین کو بے لگام کردیا ہے ۔ اس کا حکمراں پارٹی خوب فائدہ اٹھا رہی ہے ۔٭
kbaig92@gmail.com