ناروے میں عیسائی برادری کا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی

   

کرسٹن سینڈ سب کا شہر ہے ، اس نوعیت کے جرائم افسوسناک : میئر

اوسلو،25نومبر (سیاست ڈاٹ کام) یوروپی ناروے کے علاقے کرسٹیئن سینڈ میں منعقدہ اسلام مخالف ریلی میں پولیس حکام کی جانب سے متعدد بار انتباہ دیئے جانے کے باوجود قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کے بعد ایک لاکھ آبادی پر مشتمل علاقے میں مسلمانوں کے لئے جذبات میں اضافہ ہوا ہے اور مقامی افراد اس نفرت پر مبنی جرم کی مذمت کر رہے ہیں۔کرسٹیئن سینڈ کے میئر نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے شہر کی مسلمان برادری سے اظہار یکجہتی کیا۔میئر ہارالڈ فورے نے ناروے کے قومی نشریاتی ادارے این آر کے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘کرسٹیئن سینڈ سب کا شہر ہے اور ہم نظم و ضبط سے چلتے ہیں تاکہ توازن برقرار رہے ، اس طرح کے جرائم اشتعال انگیز اور قابل افسوس ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ‘‘16 نومبر کو ایک منصوبہ بندی کے تحت اشتعال انگیزی کی گئی تھی، خوش قسمتی سے پولیس نے فوری مداخلت کردی تھی’’۔واقعہ کے بعد جمعہ کو مقامی عیسائی برادری کرسٹیئن سینڈ میں قائم مسجد کے باہر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی میں کھڑی ہوئی۔کرسٹیان سینڈ کی مسلمان یونین کے سینئر رہنما طلال عمر کا کہنا تھا کہ ‘‘بڑی تعداد میں عوام نے علاقے کی مسلمان برادری کی حمایت کی ہے ، ان افراد میں سیاست دان، عیسائی رہنما اور عام شہری شامل تھے ، جنہوں نے مقامی مسلمان آبادی سے رابطہ کرکے بتادیا کے ناروے ان کے ساتھ کھڑا ہے ’’۔ان کا کہنا تھا کہ‘‘سیان ناروے کی اصل تصویر نہیں، ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے اور باقی ناروے کی عیسائی اور دیگر برادری ہمارے ساتھ ہے ‘‘۔یہ واقعہ 16 نومبر کو پیش آیا جب ایک غیر معروف دائیں بازو کی شدت پسند تنظیم ‘اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے ’ (سیان) نے کرسٹیئن سینڈ میں مظاہرہ کیا، جس کے دوران انہوں نے قرآن پاک کے نسخے کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی سانحہ کی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ جب سیان کے رہنما لارس تھورسن قرآن پاک کو نذرآتش کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو ناروے میں مقیم فلسطینی نوجوان قصی راشد نے رکاوٹوں کو عبور کیا اور سیان کے رہنما کو لات مار کر گرا دیا۔تاہم پولیس نے مداخلت کرکے لارس تھورسن سمیت راشد کو بھی حراست میں لے لیا۔قبل ازیں رواں سال ناروے کے دارالحکومت اوسلو کی ضلعی عدالت نے لارس تھورسن پر نفرت پر مبنی جرم کا مرتکب ہونے والے کرمنل کوڈ کی دفعہ 185 کے تحت 30 روز جیل اور 20 ہزار کرونر جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔وہ 20 جولائی 2018 کو اوسلو میں سیان کے پمفلیٹس بانٹتے ہوئے پکڑے گئے تھے جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ دوسری جانب کرسٹیئن سینڈ کے مسلمان اتحاد کے رہنما اکمل علی کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم سیان کے رہنما آرنے ٹومیر کو 16 نومبر کا مظاہرہ منعقد کرنے اور مذہبی کتاب کی بے حرمتی کرنے پر عدالت لے کر جائیں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ ‘‘یہ نفرت پر مبنی جرم تھا جو آرنے ٹومیر نے کیا ہے ، انہوں نے مسلمانوں پر زبانی حملہ کیا اور پولیس کی ہدایات کی خلاف ورزی کی’’۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ‘‘کسی کو بھی آتش گیر مادہ رکھنے کی اجازت نہ ہونے کی پولیس کی واضح ہدایات ہونے کے باوجود انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا، یہ خلاف ورزی ناروے کے قوانین میں قابل سزا جرم ہے ’’۔واضح رہے کہ مظاہرے سے قبل کرسٹیئن سینڈ کی پولیس نے سیان کے رہنماؤں کو بتادیا تھا کہ وہ مظاہرے کے دوران قرآن پاک کو نذر آتش نہیں ہونے دیں گے ۔مذکورہ واقعے کے بعد مسلمان برادری کو ناروے کے عوام کی حمایت حاصل ہونے لگی۔