ہر ایک لمحہ بدلتے ہیں لوگ خود کو جناب
کسی کو یہ نہ سمجھنا کہ آج ایسا تھا
ویسے تو انتخابات میں کئی اہم سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین اکثر و بیشتر بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اسی بوکھلاہٹ میں وہ ایسے کام یا ریمارکس کر بیٹھتے ہیں جن کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیںہوتا اور نہ ہی مہذب سماج میں ایسے ریمارکس کی کوئی گنجائش ہوتی ہے ۔ آج کل کے انتخابی ماحول میں دیکھا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے قائدین مسلسل ایسے ریمارکس کر رہے ہیں جن کا انتخابی عمل سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا ۔ اعلی قائدین سے لے کر مقامی کارکنوں تک کو اقتدار کا نشہ سر چڑھ گیا ہے اور اسی نشے میں وہ ریمارکس کرنے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ اب اس کا اثر چیف منسٹر بہار نتیش کمار پر بھی ہونے لگا ہے ۔ نتیش کمار نے گذشتہ مہینوں ہی میں مہا گٹھ بندھن ( آر جے ڈی و کانگریس ) کا ساتھ چھوڑ کر دوبارہ این ڈی اے ( نریندر مودی ) کا دامن تھام لیا ہے ۔ وہ سیاسی مخالفین کو اپنی انتخابی تقاریر میں نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ تاہم وہ اس معاملے میں اپنے عہدہ کے وقار کو برقرار رکھنے میں بھی ناکام ہیں ۔سیاسی مخالفت اپنی جگہ درست ہے اور ایک دوسرے پر مسائل و پروگرامس کی بنیاد پر تنقیدیں کرنے کا سبھی کو حق حاصل ہے تاہم شخصی ریمارکس کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کبھی کبھار الٹی بھی ثابت ہوسکتی ہے اور یہی آثار نتیش کمار کیلئے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ نتیش کمار نے گذشتہ پارلیمانی انتخابات بھی بی جے پی کے ساتھ مل کر لڑے تھے اور انہیںبی جے پی کے ساتھ اچھی کامیابی ملتی رہی تھی ۔ تاہم جس طرح سے وہ لگاتار ایک سے دوسرے اتحاد کا دامن تھام رہے ہیں اس سے ان کی عوامی مقبولیت میںکمی ہوتی جا رہی ہے اور اس بار بہار میں اپوزیشن مہا گٹھ بندھن کے امکانات بھی بہتر ہونے لگے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ نتیش کمار بھی سیاسی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں اور وہ آر جے ڈی کے سربراہ لالو پرساد یادو کے خلاف شخصی ریمارکس کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے لالو یادو کے زیادہ تعداد میں بچوں کا مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے اور کہا کہ لالو نے زیادہ بچے پیدا کردئے ہیں۔ کیا کسی کو اتنے بچے پیدا کرنے چاہئیں؟ ۔
اس طرح کے ریمارکس کسی کیلئے بھی ذیب نہیں دیتے اور خاص طور پر ان افراد کو تو ایسے ریمارکس سے زیادہ گریز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو دستوری اور عوامی عہدوں پر فائز رہتے ہیں۔ نتیش کمار سیاسی اعتبار سے اپنے طور پر فیصلے کرنے اور کسی کا بھی ساتھ نبھانے اور کسی کی بھی مخالفت کرنے کیلئے آزاد ہیں لیکن انہیں کسی کے خلاف بھی شخصی ریمارکس کرنے اور کسی کے بچوں کی تعداد پر تبصرہ کرنے کا حق بالکل نہیں رہتا ۔ اس طرح کے ریمارکس سے نتیش کمار کی عوامی شبیہہ بھی متاثر ہونے کے اندیشے ہیں اور وہ لگاتار اپنی امیج خراب کرتے اور اپنی مقبولیت گنواتے جا رہے ہیں۔ ایک طویل عرصہ تک سیاست میں رہتے ہوئے اور کئی معیادوں کیلئے چیف منسٹر رہتے ہوئے انہیں اس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی کے بچے اور ان کی اولادیں ہر ایک کیلئے عزیز ہوتی ہیں اور کسی دوسرے کو اس تعلق سے تبصرہ یا ریمارک کرنے کا کوئی حق یا اختیار حاصل نہیںرہتا ۔ یہ خیال تقویت پانے لگا ہے کہ نتیش کمار کو بھی بی جے پی قائدین کے تبصروں کا اثر ہونے لگا ہے اور وہ بھی ایک سیاسی لحاظ پاس رکھنے کی روایت کو توڑتے ہوئے بے ہنگم بلکہ بسا اوقات بیہودہ تبصرہ کرنے لگے ہیں۔ جس طرح کی صورتحال بہار میں دکھائی دے رہی ہے اور جو سرویز ظاہر کرنے لگے ہیں اس سے سیاسی بوکھلاہٹ واقعتا محسوس ہونے لگی ہے ۔ اسی وجہ سے نتیش کمار کی زبان بے قابو ہونے لگی ہے اور وہ ایسے تبصرے کرنے لگے ہیں جو شائد انہیں نہیں کرنے چاہئیں۔
بہار میں جو سیاسی حالات پیدا ہونے لگے ہیں ان میں بی جے پی اور نتیش کمار دونوں ہی کو انتخابات میںنقصان کے اندیشے لاحق ہونے لگے ہیں۔ بی جے پی شمال کی ریاستوںاور خاص طور پر بہار میں ہونے والے امکانی نقصان کو پورا کرنے کیلئے جنوبی ہند پر توجہ دینے لگی ہے ۔ تاہم نتیش کمار کیلئے کسی اور ریاست میں کوئی موقع نہیں ہے ۔ بلکہ خود بہار میں بی جے پی نے چراغ پاسوان کی صورت میں ان کا ایک مد مقابل لا کھڑا کردیا ہے ۔ نتیش کمار اس صورتحال میں بی جے پی سے کچھ کہنے کے موقف میں نہیں رہ گئے ہیں اسی لئے وہ اپنی بوکھلاہٹ اور بے بسی کا سیاسی مخالفین پر اظہار کرنے لگے ہیں۔
مسلم ووٹرس کی ذمہ داری
ملک بھر میں انتخابی عمل شدت اختیار کرچلا ہے ۔ پہلے مرحلے میں 102 پارلیمانی حلقوں کیلئے ووٹ ڈالے جاچکے ہیں۔ اس مرحلہ کے بعد اقتدار کے دعویدار دونوں ہی اتحاد بلند بانگ دعوے شروع کرچکے ہیں۔ تاہم ان میںکتنی سچائی ہے یہ انتخابی نتائج ہی سے معلوم ہوسکتا ہے ۔ تاہم اب بھی انتخابات کے چھ مراحل باقی ہیں۔ مسلم ووٹرس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پوری اجتماعیت کے ساتھ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ ووٹ ڈالنے میں غفلت ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑا کرسکتی ہے ۔ ووٹ جمہوری اور دستوری حق ہے اور ساتھ ہی یہ ذمہ داری بھی ہے ۔ اس سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہئے ۔ مسلمان اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے فرقہ پرست طاقتوں کو کامیاب ہونے سے روک سکتے ہیں۔ جو طاقتیں مسلمانوںکو حاشیہ پر لا کھڑا کرنا چاہتی ہیں اور اس کیلئے عملی اقدامات کا آغاز بھی کرچکی ہیں انہیں روکنا ضروری ہے اور انہیںاسی وقت روکا جاسکتا ہے جب مسلمان اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کا پوری سمجھداری اور فہم و فراست کے ساتھ استعمال کریں۔