نواسۂ رسول حضرت امام حسنؓ

   

شہادت : ۵؍ربیع النّور ۴۹ ہجری

ابوزہیر مولانا سید زبیر ہاشمی
ساری کائنات کا خالق ومالک اﷲتعالیٰ ہی ہے ۔ اور وہی سب سے اعلیٰ و ارفع ہے ۔ اس کے بعد اگر کوئی ذات مقدسہ قابل تعظیم ہے تو وہ حضور نبی اکرمﷺ ہیں ، آپ ﷺ کے بعد اہل بیت اطہار یعنی آپ کے گھر والے عظمت والے ہیں ان سب کی تعظیم وتکریم ہر ایک کے لئے بے انتہاء ضروری ہے ۔ کیونکہ سورئہ احزاب میں فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ ’’ سوائے اس کے کچھ نہیں اﷲ چاہتاہے کہ آپ کے گھر والوں کو ہر طرح کی گندگی اور نجاست سے پاک و صاف کیا جائے ‘‘۔ اس اٰیت سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کے گھر والے انتہائی عظمت والے اور شرف والے ہیں ۔ ان کی جتنی تعظیم و توقیر کی جائے اتنا ہی ہمیں بہتر طور پر آگے بڑھنے کا بھر پور موقع ملے گا۔چنانچہ اہل بیت اطہار {۱۔ محمد عربی ﷺ ۲۔ حضرت علی ۳۔ حضرت فاطمہ ۴۔ حضرت حسن ۵۔ حضرت حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہم اجمعین } جنکو ہم پنجتن کہتے ہیں ۔ ان تمام سے اور ازواج مطہرات و اولاد نبی سے ہمیں والہانہ محبت رکھنی چاہئے ۔ آج ان اہل بیت اطہار میں سے ایک ایسی ہی عظیم شخصیت کے متعلق کچھ تحریر کیا جائیگا جو نہ صرف اپنے آپ میں ممتاز تھی بلکہ وہ اﷲ تعالیٰ اور آقائے دوجہاں ﷺ کے نزدیک بھی محبوب تھی ۔ وہ حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں ۔
ولادت : نصف ماہ ِرمضان المبارک ۳ ہجری ، آپ صحابی اور پیارے رسول ﷺ کے نواسے ہیں۔ کنیت : ابو محمد۔
خطاب : نوجوانانِ جنت کے سردار، ریحانۃ الرسول ،مصلحِ قوم، اور شبیہ ِرسول صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم ہیں۔
جائے ولادت : مدینہ منورہ ۔ جب آقائے دوجہاں ﷺ کو ولادت کی اطلاع ملی تو حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا کے گھر تشریف لائے اور اس بچہ کا نام حسن رکھااور عقیقہ ساتویں دن کیا گیا ہے ۔
٭ حضـرت امام حسن رضی اﷲتعالیٰ عنہ سیرت اور صورت میں حضور نبی اکرم ﷺ کے مشابہ تھے ۔ جب بھی صحابہ کو حضور ﷺ کے وصال کے بعد حضور کو دیکھنا ہوتو وہ تمام امام حسن رضی اﷲتعالیٰ کو عنہ کو دیکھ لیتے تھے ۔ جیسا کہ ترمذی شریف میں حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں حضرت امام حسنؓ سینہ سے سر تک رسول اﷲ ﷺ کی کامل شبیہ تھے اور حضرت امام حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہ سینے سے نیچے تک حضور اکرم ﷺ کی کامل شبیہ تھے ۔ (ترمذی شریف ) ۔ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ کو کندھے پر لے کر نکلے ، یہ دیکھ کر ایک شخص نے کہا کہ کیا ہی اچھی سواری ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا سوار بھی کیا ہی اچھا ہے ۔ آپ بہت زیادہ سخی تھے ایک سے زائد بار اپنا پورا مال راہِ ﷲمیںخرچ کیے ۔ اور کئی دفعہ نصف مال خرچ کیے ہیں ۔
٭ طبرانی میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضورنبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضرہوئے اس حالت میں کہ آپ ﷺ چادر بچھائے ہوئے تھے۔ پس اس چادرپر حضور نبی اکرم ﷺ بنفس نفیس ،حضرت علی، حـضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہم اجمعین بھی بیٹھ گئے پھر آپ ﷺ اس چادر کے کنارے پکڑے اور ان پر ڈال کراس میں گرہ لگادی ۔ پھر فرمایا : ائے اﷲ! توبھی ان سے راضی ہوجا ، جس طر ح میں ان سے راضی ہوں ۔ (طبرانی)
٭ ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت زید بن ارقم رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہم اجمعین سے فرمایا : تم جس سے لڑوگے میں بھی اس سے لڑوںگا ، جس سے تم صلح کروگے میں بھی اس سے صلح کروں گا۔ (ترمذی ، ابن ماجہ) ۔ حضرت امام حسن رضی اﷲتعالیٰ عنہ مصلح قوم تھے یعنی آپ ؓ لوگوں میں صلح کراتے تھے ۔ یقیناً آپ کی شخصیت انتہائی اہم تھی ۔ اور ایسی شخصیت کی نگرانی کوئی اور نہیں بلکہ بحکم خداوندی فرشتے کرتے تھے۔ اور آقائے دوجہاں ﷺ بھی بے انتہاء آپ ؓ سے محبت کرتے تھے ۔ اور آپ کو حضور اکرم ﷺ اپنے کندھے پر اٹھاکر دعا فرماتے تھے ، ائے اﷲ میںان سے محبت کرتاہوں توبھی ان سے محبت کر۔آپ کی خاصیت یہ تھی شہادت حضرت علی رضی اﷲعنہ کے بعد تقریباً نود ہزار (۰۰۰،۹۰) لوگ آپ کے دست ِاقدس پر بیعت کئے ہیں ۔
شہادت: ۵ ؍ربیع الاول ۴۹ھ؁ کو حضرت شبیہ ِمصطفی ﷺ کا وصال ہوا ہے ۔اور آپ کی مزار مبارکہ جنت البقیع میں والدئہ محترمہ کے پہلو واقع ہے۔ (بحوالہ رحمۃ للعالمین ، انسائیکلو پیڈیا،
پیش کردہ دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدر آباد)
zubairhashmi7@gmail.com