پی بی مہتا کے بعد اروند سبرامنین نے بھی اشوکا یونیورسٹی سے استعفیٰ دیدیا

,

   

کئی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ تنظیموں کی بے چینی کے رحجان کا یہ وہ حصہ ہے جو حکمرانوں کی جانب سے اختلاف رائے رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کو روکنے کی کوشش کا ردعمل ہے


دودنوں کی مدت میں ہندوستان کے دو معروف اسکالرس پرتاب بھانو مہتا اور اروندسبرامنین نے اشوکا یونیورسٹی سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ ان دو اہم شخصیات کے استعفیٰ کو بطور صدمہ دیکھا جارہا ہے اور مانا جارہا ہے کہ اشوکا یونیورسٹی جیسے ”خود مختار“ مقام کے اندر سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔

منگل کے روز معروف اسکالر اور پولٹیکل سائنس داں پرتاب بھانو مہتا نے اشوکا یونیورسٹی سے بطور پروفیسر استعفیٰ دیدیا‘ محض دوسال کے قلیل عرصہ میں انہوں نے وائس چانسلر کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد یہ اقدام اٹھایاہے۔

مہتاموجودہ حکومت پر تنقیدیں کرنے والوں میں شامل ہیں اور وہ عوامی مقامات اور اپنے تحریرات کے ذریعہ حکومت کی کاروائیوں پر سوال اٹھایا کرتے ہیں۔ مہتا کے استعفیٰ کی وجوہات اب تک معلوم نہیں ہوئی ہیں۔

جب ان سے موجودہ حکومت پر ان کی تنقیدوں کو اس تمام معاملہ سے جوڑنے کے متعلق استفسار کیاگیاتو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

تاہم اس کے ایک ر وز. معاشیات اروند سبرامنین نے بھی محکمہ اکنامکس سے بطور پروفیسر اپنا استعفیٰ پیش کردیاہے او رمہتا کے استعفیٰ کے پس پردہ حالات کو اس کی وجہہ کے طور پر حوالہ پیش کیاہے۔

وزیراعظم ہند کے سابق چیف معاشی مشیر کے طور پر سبرامنین نے خدمات انجام دئے ہیں۔ پچھلے سال جولائی میں انہوں نے اشوکا یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ اشوکا سنٹر برائے اکنامکس پالیسی کے بانی ڈائرکٹر بھی ہیں۔

وائس چانسلر مالا بیکا سرکار کو پیش کئے گئے اپنے استعفیٰ مکتوب میں انہوں نے لکھا کہ نصابی سال کے اختتام پر ان کا استعفیٰ تسلیم کرلیاجائے۔

مہتا کے استعفیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ”اس طرح کے سالمیت اور نامور شخصیت جس نے اشوکا کے نظریہ کو مستحکم کیاہے‘ مشکل حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ یہاں تک اشوکا جسکا خانگی موقف اور خانگی سرمایہ کاروں نے نصابی اظہاراور آزادی کے لئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی ہے“۔

انہوں نے مزید لکھا کہ”ان سب سے زیادہ اشوکا ورژن کو بچانے کے لئے یونیورسٹی کی جدوجہد کے لئے وابستگی اب سوالات کے گھیرے میں ہیں‘ جس نے مجھے اشوکا کا حصہ بننے رہنے دینا مشکل کردیاہے“۔

کئی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ تنظیموں کی بے چینی کے رحجان کا یہ وہ حصہ ہے جو حکمرانوں کی جانب سے اختلاف رائے رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کو روکنے کی کوشش کا ردعمل ہے۔

بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ماہر تعلیمات او ردانشواروں پر حکومت کی کارضرب کا بھی یہ حصہ ہوسکتا ہے